ٹرمپ نے یوکرین کے لیے روس سے مذاکرات کے اہم آپشنز ختم کر دیے

رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یوکرین کسی دن روس کا حصہ بن سکتا ہے، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ حقیقت میں روس کے حمایتی ہیں یا یوکرین کے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سات دسمبر 2024 کو وسطی پیرس کے تاریخی گرجا گھر میں یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی سے مصافحہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین کے لیے اہم مذاکراتی آپشنز ختم کر دیے ہیں، جس کے نتیجے میں روس کو ایک زبردست برتری حاصل ہو گئی ہے اور یہ سب کسی نام نہاد امن مذاکرات کے آغاز سے پہلے ہوا ہے۔

اب مستقبل میں کسی بھی مذاکرات میں یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی کی پوزیشن مزید کمزور ہو گی۔

بدھ کو یوکرین کی فوجی طاقت کو فوری طور پر اُس وقت نقصان پہنچا جب امریکی عہدیدار پیٹ ہیگستھ نے نیٹو کے وزرا دفاع سے کہا کہ (امریکہ کی بجائے) یورپ کو مستقبل میں یوکرین کے لیے مہلک اور غیر مہلک امداد کا سب سے زیادہ حصہ فراہم کرنا چاہیے۔

پیٹ ہیگستھ کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انہوں نے روسی صدر ولادی میر پوتن سے جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے پر بات چیت کی ہے اور وہ اس بارے میں زیلنسکی کو ’آگاہ‘ کریں گے۔

امریکہ اب تک یوکرین کو تقریباً 120 ارب ڈالر کی امداد فراہم کر چکا ہے جس میں سے تقریباً نصف فوجی امداد پر مشتمل ہے جب کہ نیٹو کے دیگر ممالک نے بھی اتنی ہی فوجی امداد فراہم کی ہے لیکن ہیگستھ کی جانب سے یوکرین کے لیے امریکی فنڈنگ ​​میں کسی بھی اضافے کو مسترد کرنا، کریملن کے لیے ایک واضح اشارہ ہے کہ امریکہ پیچھے ہٹ رہا ہے۔

وولودی میر زیلنسکی کا مؤقف ہے کہ روس کے ساتھ کسی بھی مستقبل کے معاہدے کی کامیابی، جو اس وقت یوکرین کے تقریباً 22 فیصد علاقے پر قابض ہے، اس بات پر منحصر ہوگی کہ ڈیڑھ سے دو لاکھ غیر ملکی فوجی یوکرین میں تعینات کیے جائیں تاکہ کسی ممکنہ نئے حملے کو روکا جا سکے۔

یوکرینی صدر نے حال ہی میں واضح کیا تھا کہ یہ صرف امریکی شمولیت سے ہی ممکن ہو سکتا ہے لیکن ہیگستھ نے یہ امکان بھی یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ’واضح رہے، کسی بھی سکیورٹی گارنٹی کے تحت یوکرین میں امریکی فوجی تعینات نہیں کیے جائیں گے۔‘

یہ موقف روس کے ساتھ مذاکرات سے قبل واضح کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ زیلنسکی کی حکمت عملی میں یہ دھمکی بھی شامل ہو سکتی تھی کہ امریکی فوج یوکرین میں تعینات ہو سکتی ہے، جس سے روس کو محتاط ہونے پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔

اگر یورپ، کینیڈا اور دیگر ممالک جو یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں، اپنی فوجیں یوکرین میں تعینات کرتے، تو اس کا اثر صرف ان ممالک تک محدود نہ رہتا بلکہ نیٹو اتحاد کی مکمل طاقت اور اس کے دفاعی اثر و رسوخ کو بھی ساتھ لے آتا۔

مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا۔

پیٹ ہیگستھ نے کہا: ’اگر کوئی بھی فوج یوکرین میں امن مشن کے تحت تعینات کی گئی تو انہیں نیٹو مشن کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا اور انہیں نیٹو کے آرٹیکل فائیو کے تحت تحفظ حاصل نہیں ہو گا۔‘

آرٹیکل فائیو نیٹو کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے، جس کے مطابق کسی بھی نیٹو ملک پر حملہ پورے اتحاد پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ اصول صرف ایک بار یعنی نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ کے حق میں استعمال کیا گیا تھا۔

اب، پوتن کو یہ خوف نہیں رہا کہ اگر وہ یوکرین میں برطانوی فوجیوں پر حملہ کرتا ہے تو نیٹو کی پوری طاقت اس کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔

یہ خوف زیلنسکی کی مذاکراتی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ تھا، یہ نیٹو کی طاقت کا بنیادی عنصر بھی تھا لیکن اب یہ طاقت ختم ہو گئی ہے۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ کسی بھی نیٹو اتحادی کے دفاع میں کھڑا ہو گا؟ تو مارک روٹے نے بھی اس بارے میں کوئی واضح جواب دینے سے گریز کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بجائے انہوں نے مزید دفاعی اخراجات کی ضرورت پر زور دیا، مگر یہ نہیں کہا کہ امریکہ ہمیشہ اپنے نیٹو اتحادیوں کے دفاع میں کھڑا ہو گا۔

یہ سب روس کو مستقبل کے مذاکرات میں مزید مضبوط پوزیشن میں لے جا رہا ہے۔

صدر وولودی میر زیلنسکی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ یوکرین کو نیٹو کی رکنیت دی جانی چاہیے تاکہ روس آئندہ کسی بھی جارحیت سے باز رہے لیکن اب یہ امکان بھی ختم ہو چکا ہے۔

اسی طرح یوکرین کی یہ بنیادی شرط بھی کمزور پڑ گئی ہے کہ روس، جو 2014 میں کریمیا کے ساتھ ساتھ مشرقی ڈونباس کے کچھ حصے پر قابض ہو چکا ہے، اپنی سرحدوں کے اندر واپس چلا جائے۔

بین الاقوامی برادری اور بین الاقوامی قوانین کی حمایت سے کیے جانے والا یہ مطالبہ اب ’غیر حقیقی‘ کہلا رہا ہے، جیسا کہ امریکی وزیر دفاع نے اسے بیان کیا۔

برطانیہ کے وزیر دفاع جان ہیلی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’ہم یوکرین کے دفاع اور یورپی سکیورٹی کے بارے میں آپ کی تشویش کو سمجھتے ہیں۔‘

لیکن اب تک کسی بھی نیٹو وزیر دفاع نے یہ نہیں سمجھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے نیٹو کی حکمت عملی میں کتنی بڑی تبدیلی کر دی ہے۔

ٹرمپ کے رواں ہفتے اس بیان سے، جس میں انہوں نے کہا کہ یوکرین کسی دن روس کا حصہ بن سکتا ہے، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ حقیقت میں روس کے حمایتی ہیں یا یوکرین کے؟

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر