’انڈیا:‘ مودی مخالف اتحاد حکومت کے لیے کتنا بڑا چیلنج؟

نریندر مودی بہت مضبوط سہی مگر انہوں نے ’انڈیا‘ نامی اتحاد کے اجلاس والے دن ہم خیال جماعتوں کو جمع کر کے اپنی کمزوری کا اعتراف کر لیا۔

18 جولائی، 2023 کو بنگلورو میں انڈیا کی حزبِ مخالف جماعتوں کا اجلاس (اے ایف پی)

انڈیا کے پارلیمانی انتخابات اگلے سال اپریل یا مئی میں متوقع ہیں مگر حکمران جماعت بی جے پی کو ہرانےکے لیے اس بار حزب اختلاف کی بیشتر جماعتیں وقت سے پہلے متحد اورمتحرک ہو چکی ہیں اور ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ سیاسی اکھاڑے میں آنے کا منصوبہ بنا چکی ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

26 جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن نے بنگلور میں چند روز قبل اپنے دوسرے اجلاس کے بعد ’انڈیا‘ یعنی انڈین نیشنل ڈیویلپمنٹل انکلوسیو الائنس نامی نئے اتحاد کا اعلان کیا تو عین اسی وقت حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اور وزیراعظم نریندر مودی تمام میڈیا چینلوں پر 36 چھوٹی پارٹیوں پر مشتمل اپنےاتحاد  کے رہنماؤں سے گلے مل رہے تھے۔

بظاہر مقصد یہ تھا کہ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کی پہلی پیش رفت کو میڈیا کی تشہیر کے بجائے مودی کے اتحاد کی بھرپور تشہیر کی جا سکے، مگر حزب اختلاف کے اتحاد کی خبر کو سرے سے نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔

غیر اعلانیہ بندش کے باوجود میڈیا پر اتحاد کی بھرپور پریس کانفرنس سے تاثر پیدا ہوا ہے کہ اگر یہ اتحاد اپنی بنائی گئی انتخابی حکمت عملی پر قائم رہے تو بی جے پی کے لیے تیسری بار پارلیمانی انتخابات میں آسانی سے کامیابی حاصل کرنا دشوار ہی نہیں بلکہ ایک بڑا چیلنج بھی ہو گا۔

بی جے پی کی 15 ریاستوں میں مقامی حکومتیں قائم ہیں، زمینی سطح پر ووٹروں کے ساتھ روابط مضبوط ہیں، سوشل میڈیا پر اس کی ٹیمیں ہر لمحے متحرک ہیں، وٹس ایپ سے تمام پارٹی اور اراکین کو جوڑ دیا گیا ہے، جہاں ابھی رسائی نہیں ہوئی وہاں ہندوتوا تنظیم آر ایس ایس اس کے لیے بنیادیں کھڑی کرنے میں جٹی ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیال ہے کہ انتخابی کامیابی کے لیے پارٹی کی کارکردگی سے زیادہ نریندر مودی کی شخصیت اہم ہے جو اپنے برانڈ، کلام اور تقریروں سے ہندو ووٹروں کا من موہنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔

سیاسیات کے ایک پروفیسر انمول سنگھ کے مطابق بی جے پی کو ہرانا مشکل نہیں ہے مگر مودی کو شکست دینا یقیناً ایک بڑا چیلنج ہو گا، البتہ پہلی بار مودی نے اپنی کمزوری کا شاید اس وقت اعتراف کر ہی دیا جب انہوں نے اسی روز اپنی ہم خیال جماعتوں کو جمع کیا جب اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے مودی کے خلاف متحد فرنٹ بنانے کا بگل پہلے ہی بجا دیا تھا۔

پھر جب اپوزیشن والوں نے اتحاد کا نیا نام ’انڈیا‘ رکھا تو ایک طرف اگرچہ اس نے عوام کو چونکا دیا تو دوسری جانب بی جے پی کے لیے یہ کوئی نیک شگون نہیں سمجھا گیا جب کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے اعلان کیا کہ اس جدوجہد کا مقصد انڈیا کو نریندر مودی سے بچانا ہے، آئین اور جمہوریت کو بی جے پی سے بچانا ہے اور عوام کے ہر طبقے کو ہندوتوا کی نفرت سے نجات دلانا ہے۔

میڈیا پر یہ بھی سنا گیا کہ جو بھی ’انڈیا‘ کی مخالفت کرے گا وہ پاکستان جا سکتا ہے۔ یہ اس پالیسی کا توڑہے جو بی جے پی نے اقلیتوں کے لیے شروع کی تھی اور جنہیں اکثر پاکستان ہجرت کرنے پر کہا جا رہا ہے۔ اب اپوزیشن نے یہی فارمولا بی جے پی کے خلاف شروع کر دیا ہے۔

بی جے پی کے رہنماؤں نے فوراً یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم بھارت واسی ہیں، بھارت ہماری ماں ہے اور انگریزی کے لفظ ’انڈیا‘ سے سامراج کی بو آتی ہے، اپوزیشن، بیرونی طاقتوں کے بل پر بھارت کو انڈیا بنانے میں پہل کر رہی ہے۔

اکثر مبصرین کی رائے ہے کہ اگر اپوزیشن کا یہ اتحاد برقرار رہتا ہے تو مغربی بنگال، بہار، تمل ناڈو، پنجاب، کرناٹک کی غیر بی جے پی کی مقامی حکومتوں کے اثر رسوخ سے  پر پارلیمان کے لیے اچھی خاصی نشستیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔

اتر پردیش میں بی جے پی کی مضبوط پوزیشن ہے مگر اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی اور 24 فیصد اقلیتی ووٹ سے 80 میں سے 40 نشستیں بھی اگر حاصل کی جاتی ہیں تو بی جے پی کو ہرانا اتنا مشکل نہیں ہو گا کیونکہ بہار میں نتیش کمار کے ہوتے ہوئے بی جے پی کو 40 میں سے آدھی سیٹیں بھی ملنے کا امکان نہیں ہے۔

2019 میں گذشتہ انتخابات میں بی جے پی کی 543 نشستوں میں تین سو سے زائد سیٹیں ملی تھیں۔ اس بار رائے عامہ کے اکثر جائزے اس سے کم نشستیں ملنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں حالانکہ یونیفارم سول کوڈ کا شوشہ چھوڑ کر بی جے پی نے خود عوامی موڈ کا جائزہ لینے کی سعی کی ہے۔ بیشتر حلقوں سے منفی تاثرات حاصل ہو رہے ہیں جس کے کارن مودی نے اب پسماندہ مسلمانوں کے بارے میں بحث شروع کی ہے جس کا مقصد مسلم ووٹ کو اپنی طرف لانا ہے۔

اپوزیشن اتحاد کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ مودی کے مدمقابل کس امیدوار کو منتخب کرے گا جو تمام پارٹیوں کے لیے قابل قبول ہو۔

وزیراعظم بننے کی خواہش اروند کیجریوال، ممتا بینرجی، نتیش کمار اور ملک ارجن کھر گے کو ہے تاہم بیشتر نوجوان ووٹروں کی امیدیں راہل گاندھی سے جڑی ہیں۔

 گجرات کی ایک عدالت نے ہتک عزت کے ایک معاملے میں راہل گاندھی پر دو سال کی انتخابی پابندی عائد کر دی ہے جس کو ہٹانے کے لیے انہوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کر دی ہے۔

اندرونی ملک سیاست  کے ساتھ ساتھ مودی بیرونی دنیا میں اپنی جیت کے لیے بظاہر ایک بڑی مہم چلا رہے ہیں جس میں عرب لیگ کے رہنماؤں کا دہلی آنا، مودی کی تعریف کرنا، متحدہ عرب امارات کے شہنشاہ کے ساتھ ملاقات وغیرہ شامل ہے۔

بقول دہلی کے ایک صحافی ذاکر سلیم ’مودی اب یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ مسلم مخالف نہیں ہیں اور تیسری بار وزیراعظم بننے کے وقت اب انہیں پسماندہ مسلمانوں کا خیال آیا ہے۔ ستم یہ ہے کہ 15 فیصد اقلیت کو بے اختیار کرنے کے باوجود مسلم ملکوں کے شہنشاہ انہیں نہ صرف نوازتے رہے ہیں بلکہ اپنے ملکوں میں مندر بنانے کے لیے زمینیں بھی دے رہے ہیں، کسی ایک نے بھی بابری مسجد یا دوسری مساجد کو منہدم کرنے کا سوال نہیں کیا، حتیٰ کہ مسلمانوں کا بائیکاٹ یا انہیں کاروبار سے بے دخل کرنے پر بات تک نہیں کی۔‘

اپوزیشن اتحاد کی حکمت عملی اپنی جگہ مگر مودی کے پٹارے میں سےابھی کیا کیا نئے تیر برآمد ہوں گے، اس کے بارے میں شاید اپوزیشن کو ابھی اندازہ نہیں ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ