اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں سابق ہاکی اولمپئن ناصر علی کو دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان کے تین سابق اولمپئنز پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
یہ کالم یہاں سنا بھی جا سکتا ہے۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد میری ناصر علی سے ملاقات سابق اولمپئن کلیم اللہ کی بیٹی کی شادی کے موقع پر ہوئی جہاں ناصر علی یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے تھے کہ ’میں ان تینوں کو بے نقاب کرکے رہوں گا اور انہیں نہیں چھوڑوں گا وغیرہ وغیرہ۔‘
اس ویڈیو کے کچھ ہی دنوں بعد ایک تصویر سوشل میڈیا کی زینت بنی جس نے مجھے ہی نہیں دیکھنے والے ہر شخص کو چونکا دیا۔
اس تصویر میں ناصر علی جو اس وقت سلیکٹر ہیں، بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ شہناز شیخ کو پاکستانی ہاکی ٹیم کا کنسلٹنٹ مقرر ہونے پر گلدستہ پیش کر رہے ہیں اور شہناز شیخ بھی اتنی ہی بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ گلدستہ وصول کر رہے ہیں۔
میں یہ سوچتا ہوں کہ ناصر علی نے اپنی اس ویڈیو میں شہناز شیخ پر جو الزامات عائد کیے تھے، ان کا کیا ہوا؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ شہناز شیخ گلدستہ وصول کرتے وقت خود پر لگے سنگین نوعیت کا الزام کیسے بھول گئے؟
اخلاقی طور پر کیا دونوں میں اتنا حوصلہ نہیں تھا کہ ایک الزام ثابت نہ کرسکا اور دوسرا اس سے ثبوت بھی نہ مانگ سکا۔
اس معاملے کا ذکر کرنے کا مقصد کئی پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے جن میں ایک یہ کہ یہ سابق اولمپئننز ایک دوسرے کے لیے کس قسم کے جذبات رکھتے ہیں اور دوسرا سب سے اہم پہلو یہ کہ یہ سابق اولمپینز فیڈریشن میں عہدوں کو کتنی زیادہ اہمیت دیتے ہیں کہ اپنے اوپر ہونے والی تنقید اور سنگین الزامات کو بھی بھول کر چہروں پر مسکراہٹ سجا لیتے ہیں، چاہے دل صاف ہو یا نہ ہو۔
اب شہناز شیخ کی مثال ہی سب کے سامنے ہے جو اب 75 سال کے ہوچکے ہیں لیکن اس عمر میں بھی وہ پاکستانی ہاکی ٹیم کی کوچنگ سے وابستہ ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
حالانکہ یہ بات سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اپنے وقت کے ایک بہترین فارورڈ ضرور تھے لیکن کوچ کی حیثیت سے وہ کبھی بھی کامیاب نہیں رہے۔
اب اس میں قصور شہناز شیخ کا بھی ہے کہ وہ اب بھی عہدہ لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن زیادہ قصور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ارباب اختیار کا ہے کہ وہ وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے آگے کی طرف دیکھنے کے بجائے ریورس گیئر لگانے میں مصروف ہیں۔
پاکستان کی ہاکی کو عروج پر لے جانے والے اولمپئنز رہے ہیں لیکن یہ بات بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کی ہاکی نے عروج سے زوال تک کا جو سفر اختیار کیا اس میں بھی سابق ہاکی اولمپئنز نے کھل کر اپنا کردار ادا کیا ہے اور وہ قومی ہاکی کے زوال کے اصل ذمہ دار ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اختر رسول، قاسم ضیا، شہباز سینیئر، رانا مجاہد، خواجہ جنید اور آصف باجوہ نے کھلاڑی کی حیثیت سے اولمپک اور ورلڈ کپ کے تمغے اپنے سینے پر سجائے لیکن یہ لوگ جب ہاکی فیڈریشن میں آئے تو صدر یا سیکریٹری کی حیثیت سے قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دے سکے۔
ان میں سے متعدد نے سیاسی جماعتوں سے براہ راست تعلق ہونے کی وجہ فیڈریشن میں عہدے حاصل کیے اور چند نے سیاست دانوں سے اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہم عہدوں تک رسائی حاصل کی۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن میں آنے کے بعد ان سیاسی ہاکی اولمپئنز نے ہمیشہ مالی مشکلات کا رونا رویا لیکن دنیا یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ ان کے دور میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کو حکومت سے جتنا پیسہ ملا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی لیکن یہ پیسہ کہاں خرچ ہوا اس کا کچھ نہیں پتہ چل سکا۔
اگر یہ پیسہ پاکستان کی ہاکی کی ترقی اور اسے سنوارنے پر خرچ ہوا ہوتا تو ملک میں کاغذی ہاکی اکیڈمیوں کے قیام، ہاکی سٹکس کی خریداری میں مبینہ گڑبڑ اور ان جیسے کئی دوسرے متنازع معاملات کی خبریں ذرائع ابلاغ میں کیوں آتیں؟
پاکستانی ہاکی کو پہلا بڑا دھچکہ 1986 میں پہنچا تھا جب پاکستان ایشین گیمز کا فائنل کوریا سے ہارا اور اسی سال ورلڈ کپ میں اس کی 12 ٹیموں میں گیارہویں پوزیشن آئی تھی۔
گو کہ اس کے بعد پاکستان نے 1990 کے ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا۔ 1994 کا ورلڈ کپ جیتا اور 1992 کے اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بڑے ٹورنامنٹس کے یہ تمام تمغے پاکستان سے دور ہوتے چلے گئے۔
یہاں تک کہ وہ وقت بھی آ گیا کہ پاکستان کو ورلڈ کپ اور اولمپکس میں شرکت سے بھی محروم ہونا پڑا اور اب بھی وہ ان دو بڑے مقابلوں سے باہر بیٹھا ہوا ہے۔
2016 اور 2020 کے اولمپکس میں پاکستان کوالیفائی نہ کر سکا۔ اسی طرح 2014 اور 2023 کے عالمی کپ میں بھی پاکستان کوالیفائی کرنے سے محروم رہا۔
2018 میں اسے ورلڈ کپ میں شرکت کا موقع اس لیے مل گیا کہ اس میں 16 ٹیمیں تھیں اور ان میں بھی پاکستان کی پوزیشن بارہویں آئی جو پاکستانی ہاکی کی تاریخ میں بدترین کارکردگی ہے۔
پاکستان کے تقریباً تمام ہی بڑے ہاکی اولمپینز صدر اور سیکریٹری کے ساتھ ساتھ ٹیم منیجر اور ہیڈ کوچ کے عہدے کی باریاں لے چکے ہیں۔
اس معاملے میں خواجہ جنید سے زیادہ خوش قسمت اور کون ہوسکتا ہے وہ 2000 میں چوتھے جونیئر ایشیا کپ میں ٹیم کے ہیڈکوچ تھے ۔ پاکستان پچھلے تینوں ٹورنامنٹس جیتا ہوا تھا لیکن اس مرتبہ وہ سیمی فائنل میں بھی نہ پہنچ سکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جونیئر ورلڈ کپ کی تاریخ میں پہلی بار اس ایونٹ کے لیے کوالیفائی نہ کرسکا۔
خواجہ جنید اس کے بعد متعدد مرتبہ سینیئر ٹیم کے کوچ بھی رہے جن میں صرف 2010 کے ایشین گیمز میں پاکستان نے گولڈ میڈل جیتا اور اس کا کریڈٹ بھی ہالینڈ کے مائیکل وان ڈین ہاول کے سر جاتا ہے۔ خواجہ جنید ایونٹ سے چند روز قبل منظور جونیئر کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوچ بنائے گئے تھے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ خواجہ جنید کو جون 2017 میں لندن میں ہونے والی ورلڈ ہاکی لیگ کے لیے ہیڈ کوچ بنایا گیا تو پاکستان کو انڈیا کے ہاتھوں لیگ میچ میں ایک کے مقابلے میں سات گول کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اسی پر اکتفا نہیں بلکہ پوزیشن میچ کے پلے آف میں انڈیا نے پاکستان کو چھ، ایک سے شکست دی اور پھر کینیڈا جیسی ٹیم نے پاکستان کو چھ صفر کی ہزیمت سے دوچار کر دیا۔
پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک ٹورنامنٹ میں یہ پہلا موقع تھا کہ اسے اتنے بڑے مارجن سے تین میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ان نتائج کے بعد خواجہ جنید کو پی ایچ ایف کے صدر خالد سجاد کھوکھر نے ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا لیکن وہ پھر خواجہ جنید کو 2019 میں اولمپک کوالیفائنگ مقابلوں کے لیے لے آئے جہاں پاکستان کو ہالینڈ کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا اور یوں پاکستان ٹوکیو اولمپکس کے لیے کوالیفائی نہ کر سکا۔
یہی نہیں پاکستان اگر اس سال ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کر سکا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ سال ایشیا کپ میں پاکستان کی پانچویں پوزیشن آئی تھی جس کی وجہ سے وہ ورلڈ کپ سے باہر ہوگیا۔ اس ٹیم کے منیجر خواجہ جنید تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس وقت پاکستان ہاکی فیڈریشن کی باگ ڈور بریگیڈئر (ریٹائرڈ) خالد سجاد کھوکھر کے ہاتھوں میں ہے، جو 2015 میں پی ایچ ایف کے صدر بنے تھے جب اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے اختر رسول کو پی ایچ ایف کے صدر کے عہدے سے فارغ کر دیا تھا، کیونکہ پاکستانی ہاکی ٹیم اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ اولمپکس کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
اگر ہم خالد سجاد کھوکھر کے طویل دور کا جائزہ لیں تو وہ کامیابیوں سے زیادہ ناکامیاں لیے ہوئے ہیں لیکن کوئی بھی حکومت انہیں ان کے عہدے سے ہٹانے کی جرات نہیں کر سکی ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ گذشتہ سال جب خالد سجاد کھوکھر دوبارہ پی ایچ ایف کے صدر منتخب ہوئے تو پاکستان سپورٹس بورڈ نے اس الیکشن کو تسلیم نہیں کیا تھا بلکہ سابقہ حکومت نے ہاکی فیڈریشن کو مقررہ وقت پر الیکشن نہ کرانے پر ڈی نوٹیفائی کر دیا تھا۔
گذشتہ سال حکومت نے ہاکی کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں خواجہ آصف، ایاز صادق اور احسان مزاری شامل تھے۔ اس کے علاوہ سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اصلاح الدین، اختر رسول، شہناز شیخ اور ڈی جی پاکستان سپورٹس بورڈ پر مشتمل ایک اور کمیٹی تشکیل دی تھی جسے ہاکی فیڈریشن کی سات سالہ کارکردگی کا جائزہ لینے کا ٹاسک دیا گیا تھا لیکن اب چونکہ حکومت جا چکی ہے لہذا اس کمیٹی کا بھی کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہو گا۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب تو حکومت پاکستان ہاکی فیڈریشن کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے ڈی نوٹیفائی کر دیتی ہے تو دوسری جانب یہ سوال ذہنوں میں آتا ہے کہ اگر فیڈریشن کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں تو پھر حکومت اسے غیرملکی ٹورنامنٹس میں شرکت کا این او سی کیوں جاری کرتی ہے؟
انڈیا میں ہونے والی ایشین چیمپئنز ٹرافی میں پاکستانی ہاکی ٹیم چھ ٹیموں میں پانچویں نمبر پر آئی جو اس کی اس ایونٹ میں سب سے خراب کارکردگی ہے لیکن اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ دو اولمپکس اور دو ورلڈ کپ پاکستان کے بغیر کھیلے جا چکے ہیں۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ تین اولمپک گولڈ میڈلز اور چار ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستانی ہاکی ٹیم ان مقابلوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہی ہو گی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔