پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کے ملازمین کا متوقع نجکاری اور ملازمین کی تنخواہ نہ بڑھانے کے خلاف احتجاج گذشتہ چند روز سے جاری ہے اور قومی ایئر لائن کے سینیئر سٹاف کی تنظیم ’ساسا‘ نے متنبہ کیا ہے کہ اگر طالبات نہ مانے گئے تو احتجاج کا دائرہ کار بڑھا دیا جائے گا۔
ساسا سے وابستہ راحت اللہ خان نے الزام عائد کیا کہ ایک ’سوچی سمجھی سازش‘ کے تحت قومی ایئر لائنز کی نجکاری کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’نجکاری کے تحت پی آئی اے کا منافع بخش حصہ نجی کمپنیوں کو دے دیا جائے گا اور بعد میں خسارے اور قرضوں کا بہانہ بنا کر پی آئی اے کے اثاثوں کو بیچنے کے ساتھ ساتھ ہوٹل، کچن اور دیگر شعبے اپنے من پسند افراد کو دیے جائیں گے۔‘
راحت اللہ خان کے مطابق: ’گذشتہ حکومت نے جاتے جاتے پی آئی اے کی نجکاری کا ایک بل پاس کیا جو اس وقت نجکاری کمیٹی کے پاس ہے۔
’ہمیں خدشہ ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری پر جلد عمل کیا جائے گا، اس لیے ہم احتجاج کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’احتجاج کے پہلے مرحلے میں پی آئی اے کے ملک بھر میں موجود بکنگ آفسز میں روزانہ شام تین سے پانچ بجے تک ’قلم چھوڑ ہڑتال‘ کی جا رہی ہے جبکہ جمعے کو پی آئی اے ہیڈ آفس کے سامنے علامتی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔
’اس کے علاوہ پی آئی اے کے تمام ملازمین کی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا گیا۔ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو پھر احتجاج کے لیے ہم اپنا لائحہ عمل بنائیں گے۔‘
راحت اللہ خان نے مزید کہا پی آئی اے انتظامیہ کا موقف رہا ہے کہ قومی ایئر لائن خسارے میں ہے اس لیے تنخواہوں میں اضافہ ممکن نہیں۔
’ہم پوچھتے ہیں کہ پی آئی اے مکمل طور پر حکومت کی ملکیت ہے تو خسارے کے ذمہ دار پی آئی اے کو چلانے والے ہیں، نہ کہ ملازمین۔ تنخواہوں میں اضافہ ملازمین کا حق ہے، جو انہیں دیا جائے۔‘
پی آئی اے کی سی بی اے یونین کے صدر ہدایت اللہ خان نے بتایا کہ پی آئی اے میں 2950 مزدوروں سمیت ایک سے چار گریڈ کے 7500 ملازمین ہیں، جن کی تنخواہیں گذشتہ چار، پانچ سال نہیں بڑھائی گئیں۔
’حال ہی میں تنخواہ میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا جو مہنگائی کے دور میں کچھ نہیں۔ اس لیے ہم احتجاج کر رہے ہیں کہ ہمیں ہماری تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔‘
ساسا رہنما صفدر انجم کے مطابق پی آئی اے میں پانچ سے 10 گریڈ کے 3600 افسران ہیں، جن کی تنخواہ 2016 سے نہیں بڑھائی گئی۔ ’ہمارا احتجاج پی آئی اے کی ری سٹکچرنگ اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہے۔
’جتنی تنخواہ حکومت نے (سرکاری ملازمین کی) بڑھائی ہے اس حساب ہی بڑھا دیں، مگر پی آئی اے انتظامیہ سننے کو تیار نہیں۔‘
پی آئی اے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے احتجاج پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ’احتجاجی کال، اس وقت انتہائی غیر ضروری، غیر مناسب اور ملکی مفادات کے منافی ہے۔‘
انہوں نے کہا ’پی آئی اے کو اس وقت بینکوں کے قرضوں، طیاروں اور انجنوں کے لیز اور انجینئرنگ کی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے اور ان مشکلات کو دور کرنا ادارے کی اولین ترجیح ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'تین سال کی محنت کے بعد اب یورپ برطانیہ کا بند سیکٹر بحال ہونے کی امید ہے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی رکاوٹ پی آئی اے کو ناصرف بہت پیچھے لے جائے گی بلکہ مزید اور سنگین مالی مشکلات سے دوچار بھی کرے گی۔
’اس نہج پر تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ کا مطالبہ اور پی آئی اے کی ممکنہ تنظیم نو کو روکنے کا مطالبہ حقیقت سے نظر چرانے کے مترادف ہے۔‘
پی آئی اے ترجمان کے مطابق مارچ 2023 میں تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ تمام ملازمین کے کہنے پر کیا گیا تھا۔
’ادارے کی مالی مشکلات کے پیش نظر مزید اضافہ فوری طور پر ممکن نہیں، تاہم حالات میں بہتری آتے ہی اس پر ںظر ثانی کی جائی گی۔‘
پی آئی اے کی نجکاری کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ’اس وقت کوئی نئی نجکاری نہیں کی جا رہی، جس کے لیے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
’2016 کے ایک بل کے تحت پی آئی کا کچھ حصہ نجی کمپنیوں کو دیا جائے گا۔ پی آئی اے کی 96 فیصد مالیت حکومت پاکستان کے پاس ہے۔
'نجکاری نہیں بلکہ تنظیم نو کی جا رہی ہے۔ پی آئی اے کے 11 بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے 10 حکومت کے ہیں جب کہ ایک منتخب ہے۔
’تنظیم نو کے تحت پی آئی اے کے کچھ شیئرز نجی کمپنیوں کو دیے جائیں گے، پی آئی اے کو مکمل طور پر پرائیویٹائیز نہیں کیا جا رہا۔‘