برطانیہ کی حکومت نے 2018 میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے اعلان کیا تھا کہ ملک سے 2040 تک پیٹرول اور ڈیزل کی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
تیل کے برآمداد کرنے والی عالمی تنظم اوپیک کے مطابق سال 2040 تک ماحول کے لیے صاف نیم البدل ساڑھے چھبیس کروڑ سے زائد بجلی سے چلنے والی گاڑیاں سڑکوں پر ہوں گی۔
فرانس نے بھی 2040 تک پیٹرول اور ڈیزل کی گاڑیاں ختم کرنے کا ہدف متعین کیا ہوا ہے۔
ان سرکاری اعلانات کے برعکس بجلی سے چلنے والی گاڑیاں آخر کتنی ماحول دوست ہیں اور کیا وہ عالمی آلودگی سے نمٹنے کا بہترین حل ہے؟
1۔ بجلی سے چلنے والی گاڑیاں کیوں ماحول دوست سمجھی جاتی ہیں؟
ٹرانپسورٹ اور ماحولیات کے ایک تھنک ٹینک یوان لی پتی کے مطابق بجلی سے چلنے والی گاڑیاں ڈیزل کے مقابلے میں 2030 تک کاربند ڈائی آکسائیڈ کی آدھی گیس فضا میں چھوڑیں گی۔ نایٹروجن ڈائکسائیڈ کا ڈیزل کے دھویں میں اخراج ناصرف ماحول کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ انسانی صحت کے لیے بھی مضر ہے۔
کوپن ہیگن نے توقع ہے کہ 2019 سے ہی ڈیزل گاڑیاں ختم کر دینی ہیں۔
شہر کے میئر فرینک جینسن کا کہنا ہے کہ ”یہ حقوق انسانی نہیں کہ آپ ہوا کو دوسروں کے لیے آلودہ کر دیں۔ اسی وجہ سے ڈیزل گاڑیاں ختم کر دی جانی چاہیے۔”
بی بی سی کے ماحولیات کے ماہر روجر ہارابن کے مطابق ڈیزل گاڑیوں سے جڑی فضائی آلودگی سے اندازہ ہے کہ برطانیہ میں ہر سال تقریبا 40000 اموات ہوتی ہیں۔
2۔ بجلی سے گاڑیاں کیسے چلیں گی؟
انہیں اکثر زیرو ایمشن گاڑیاں کہا جاتا ہے، لیکن بجلی سے چلنے والی یہ گاڑیاں مستقبل کی ٹرنسپورٹ قرار دی جا رہی ہے۔ انہیں لیتھیم ایان بیٹریاں چلائیں گی جو آج سے ستائیس سال قبل پہلی مرتبہ سونی سی سی ڈی- ٹی آر آئی کیم کوڈر کے ساتھ فروخت ہوئیں اور جلد ہی موبائل فونز، کمپوٹرز اور حتاکہ ای سیگریٹوں میں بھی استعمال ہونی لگیں۔
بینچ مارک منرل انٹیلیجنس کے سائمن موورز کا ماننا ہے کہ لیتھیم باآسانی مل جاتا ہے اور ابھی کی سالانہ 180000 ٹن کی پیداوار کے اعتبار سے 21 کروڑ نٹ سے زائد دستیاب ہے۔
سویٹزلینڈ میں ٹیکنالوجی اینڈ سوسائٹی کے ڈومنک نوٹر کہتے ہیں کہ لیتھیم ہلکی دھات ہے اور سب سے زیادہ الیکٹروکیمکل صلاحیت رکھتی ہے جس کی وجہ سے توانائی کی زیادہ مقدار رکھتی ہے۔
3۔ بیٹریوں کو تکلف کرنا
لی آن بیٹریاں اگرچہ ماحول دوست قرار دی جاتی ہیں لیکن جو انہیں بجلی کی گاڑیوں کے لیے تیار کیا جائے گا تو ماحولیات سے جڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
ان کی تلفی خصوصی طور پر ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔
لی سائیکل نامی کینیڈین بیٹری ری سائیکلنگ ادارے کے سی ای او اجے کوچار سمجھتے ہیں بجلی کی گاڑیوں کے استعمال سے گیارہ ملین استعمال شدہ بیرٹیوں کی ری سائیکلنگ موجودہ وقت سے 2030 تک کرنا پڑے گی۔
فرینڈز آف ارتھ یورپ کے ماحولیات کے نیٹ ورک کے مطابق یورپی یونین میں سال 2010 میں تقریبا تیرہ سو ٹن لی آن بیٹریاں اکٹھی کی گئیں۔ تقریبا چار سو ٹن لیتھیم پرائمری بیٹریاں اس کے علاوہ ہیں۔
اتنی بڑی مقدار میں لیتھیم کی ری سائیکلنگ کوئی آسان بات نہیں کیونکہ یہ آتشی اور ردعمل ظاہر کرنے والا مواد ہے۔ نتیجتا اس قسم کے زہریلی دھات کسی جگہ دبایا جاسکتا ہے یا پھر جلایا جاسکتا ہے جو ماحول کے لیے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔
4۔ لیتھیم کے تیاری
لیتھیم کی ابتدائی تیاری کے لیے ڈیزل ایندھن کی مدد سے زیرزمین نمکین پانی کشید کرنا ہوتا ہے جبکہ بیٹری کے انتظام کے اندر دھاتیں جیسے کہ الومینیم کو زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایکسلیران کے کیمیائی انجینر امرت چندن کہتے ہیں: ”اس مواد کو زمین سے نکالنے کے لیے اتنی زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم انہیں دوارہ استعمال نہ کریں تو ہم ماحول کے لیے مسائل مزید پیچیدہ کر رہے ہوں گے۔”
5۔ بیٹری کا حجم
انٹرنیشنل کونسل آن کلین ٹرانسپورٹیشن کے یورپ کے لیے مینجنگ ڈائریکٹر پیٹر موک کے مطابق عمومی رجحان یہ ہے کہ بڑی صلاحیت کے ساتھ بڑی لی آن بیٹریاں تیار کی جائیں جو غیرضروری ہے۔ ”نوئے فیصد گاڑیوں کے لیے اتنی بڑی بیٹری قابل فہم نہیں ہے۔”
برطانیوی سرمایہ کاری بنک اور تحقیقی مرکز لیبریم کی پیش گوئی کے مطابق بجلی کی گاڑیوں کی بیٹریوں کی طاقت 2025 تک 20 سے 40 کے ڈبلیو ایچ بڑھ جائے گی۔
حجم میں بڑی بیٹریاں انہیں تلف کرنے کے لیے زمین کے مسئلے کو سنگین کر دے گی اور انہیں ٹھنڈا رکھنے کی زیادہ کوشش کی ضرورت ہوگی۔ یہ عمل چونکہ آتشی مواد کے حامل ہوتی ہیں بیٹریوں کے آگ پکڑنے سے روکتی ہیں۔
بعض کے لیے ان بیٹریوں کے حجم کی وجہ سے زمین میں دبانہ بھی حل نہیں ہے۔
بیلجین میٹریل ٹیکنالوجی کمپنی یومیکور کے چیف ایگزیکٹو مارک گریبرگ کہتے ہیں کہ ”ان کے حجم کی وجہ سے ان بیٹریوں کو گھروں پر نہیں رکھا جاسکتا اور نہ ہی زمین میں دفنانا حل ہے۔”
6۔ کوبالٹ
لی آن بیٹریوں کے حصے کے طور پر 8000 سے 9000 ٹن کوبالٹ ہر سال خیال ہے استعمال کیا جاتا ہے۔
لندن کی تحقیقی سروس روسکل انفارمیشن سروسز کے مینجنگ ڈائریکٹر رابرٹ بےلس کہتے ہیں کہ یہ ان لوگوں کے لیے مشکل پیدا کرتا ہے جو بجلی کی گاڑی کو صاف نئی ٹیکنالوجی مانتے ہیں۔ ”دو تہائی کوبالٹ کانگو کی کانوں سے نکلا جاتا ہے جہاں بچوں سے مشقت کا مسئلہ اور ماحولیاتی معیار اچھے نہیں ہیں۔”
”یہ پھر چین بھیجی جاتی ہے جہاں اسے ماحولیاتی محافظین کی آنکھوں سے دور پراسسنگ کرتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں کیمائی کپمنیاں یسے کہ ایل جی کیم نے اعلان کیا کہ وہ اپنی بیٹریوں میں کوبالٹ کا عنصر کم کر رہے ہیں۔ سام سنگ ایس ڈی آئی نے بھی فی بیٹری کوبالٹ کی مقدار نصف کر دیں گے۔
7۔ کیا 2040 کی پابندی اہم ہے؟
ڈیزل کاروں پر 2040 کی پابندی ماحولیاتی ماہرین کے لیے اچھی خبر ہے، لیکن ماحولیاتی گروپ ڈبلیو ایف ایف میں ماحولیاتی اور توانائی کی پالیسی کے سربراہ گیرتھ ریڈمونڈ-کنگ نے وضاحت کی ہے کہ اس طرح کے فیصلے کی جلد ضرورت ہے۔
"”حکومت نے اس قانون پر عمل درآمد سات سال تک سست روی دکھائی اور پھر یہی ہدف اتنے عرصے کے بعد اپنے لیے رکھا ہے۔”
سوال یہ ہے کہ آیا الیکٹرک کاروں سے کیا واضح طور پر ماحول کی آلودگی سے بچنے میں مدد مل سکتی ہے، یا شاید اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے؟