پاکستان اس وقت انتہائی نازک اور حساس حالات سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی و پیٹرول کی قیموں نے عوام کا جینا تقریباً محال کر دیا ہے تو دوسری جانب سکیورٹی کی کشیدہ صورت حال بھی قومی اداروں اور حکومت پاکستان کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت سے کھڑی ہے۔
حالات کی ستم ظریفی ہے کہ اس وقت ملک میں کوئی منتخب حکومت نہیں، جس پر مخدوش حالات کی ذمہ داری ڈالی جا سکے۔ جو ماضی کی حکومتیں ہیں وہ اپنا دامن چھڑا کر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرانے میں مصروف ہیں۔
پی ڈی ایم نے پورے 16 ماہ میں صرف پی ٹی آئی پر تنقید کر کے اپنی خامیوں کو چھپائے رکھا۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں انتقامی کارروائیوں اور اپوزیشن پر تنقید سے کام چلایا۔ اس ساری صورت حال میں پاکستان کی عوام کسی کی بھی اولین ترجیح نہ رہے۔
پی ڈی ایم نے اسمبلی کی مدت سے تھوڑا پہلے حکومت ختم کرکے اپنے آپ کو ایک طرف کر لیا اور گذشتہ پانچ سال کا جتنا بھی معاشی و انتظامی ملبہ تھا وہ خاموشی سے نگران حکومت کے سر پر ڈال کر واپس اپنی سابقہ پوزیشن سنبھال لی۔
اب ان حالات میں جہاں عوام گذشتہ ایک ہفتے سے بجلی کے کمر توڑ بلوں کے لیے سڑکوں پر تھی اور اپنی بے بسی بیان کر رہی تھی، ایسے میں پیٹرول بم بھی ان کے کاندھوں پر گرا دیا گیا۔ لیکن یہ کہنا کہ موجودہ حالات کی ذمہ دار نگران حکومت ہے سراسر زیادتی ہو گی کیونکہ اس حکومت کو تو آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔
سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کا سارا ملبہ نگران حکومت پر ڈالنے سے حالات ٹھیک تو نہیں ہوں گے لیکن اگر دیکھا جائے تو حکومت عوام کو ریلیف دینے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ لیکن کیا اس معاشی بھنور سے نکلنے کے لیے نگران حکومت کے پاس مینڈیٹ موجود بھی ہے یا نہیں؟
اس کڑے امتحان میں جہاں پورا پاکستان قیامت خیز بجلی کے بلوں اور حال ہی میں دوبارہ بڑھنے والی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے جوجھ رہی ہے، نگران حکومت کو پاکستانی عوام کے غموں کا بھرپور ادراک ہے لیکن وہ بھی اس وقت مجبور ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف پروگرام کی سخت شرائط کے باعث ان کے ہاتھ بندھے ہیں تو دوسری طرف عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں اور ڈالر کی روز بروز بڑھتی ققدر ان کی مشکلات کو بڑھانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔
اب ایسے میں بجلی کے بلوں میں ریلیف ایک چیلنج سے کم نہیں۔ ان کڑے معاشی حالات اور آئی ایم ایف پروگرام کے تناظر میں ہی فیصلے ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے گذشتہ دنوں میڈیا بریفنگ کے دوران میرے سوال پر نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ان حالات میں وہ حقیقت پسندانہ روش اختیار کرتے ہوئے فیصلے کرر رہے ہیں۔
خیر نگران حکومت نے بجلی کے بلوں میں ریلیف کا پلان آئی ایم ایف کے حوالے کر دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہاں سے کیا جواب آتا ہے۔
ملک میں جہاں مہنگائی اور بجلی کے حالیہ قیامت خیز بلوں نے افراتفری مچائی ہوئی ہے، وہی ایک اور معاملہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے اور وہ ہے ملک میں عام انتخابات کا وقت پر انعقاد۔ نگران حکومت کے قیام کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ملک میں بروقت صاف اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکے۔
نگران حکومت کے قیام سے قبل ہی ملک بھر میں یہ بات زیر گردش رہی کہ یہ نگران سیٹ اپ اپنی آئینی مدت یعنی 90 دن سے تجاوز کرے گی، جس کی واضح وجہ یہ ہے کہ جب سے مشترکہ مفادات کونسل نے نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی منظوری دی ہے، تب سے ہی قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ 90 دن میں تو الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں سے متعلق جو شیڈول جاری کیا ہے اس میں تو باضابطہ کہا گیا ہے کہ ملک میں بروقت الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں میں تاخیر اور الیکشن کی تاریخ آگے لے جانے کے منصوبے کے بعد پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف سامنے آئیں اور بار بار ملک میں الیکشن کے بروقت انعقاد پر زور دینے لگیں۔
اس سلسلے میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے وفود الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حکام سے مل چکے ہیں، جبکہ اس کے علاوہ حال ہی میں سپریم کورٹ میں صوبہ پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے عدالت عظمیٰ کے حکم پر نظر ثانی کی الیکشن کمیشن کی درخواست خارج بھی ہوئی اور چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے آئین کی خلاف ورزی ہوئی تو سپریم کورٹ ایکشن لے گی۔ اسی حوالے سے ایک اور اہم پیشرفت امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی چیف الیکشن کمشنر سے ہونے والی ملاقات بھی ہے۔
ایسے لگتا ہے کہ یہ ساری سرگرمیاں اپنا کام کر گئیں اور الیکشن کمیشن نے بھی انتخابات کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تبدیل کر دی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کل ہی حلقہ بندیوں کے حوالے سے نظرثانی شدہ شیڈول سامنے لایا، جس کے مطابق حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت دسمبر کے وسط کے بجائے نومبر کے آخر میں ہو گی۔ لیکن اس سے مجھے نہیں لگتا کہ الیکشن کے 90 روز میں ہونے کا کوئی امکان پیدا ہوتا ہے۔
اس سارے منظر نامے میں الیکشن کا انعقاد اگلے سال جنوری سے قبل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔