صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے پرتشدد واقعات میں گھرے ضلع کرم میں سات روزہ فائر بندی کے اعلان کے باوجود پیر کو فریقین میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔
لوئر کرم کے علاقے بگن سے تعلق رکھنے والے ایک رہائشی نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ حالات بہت کشیدہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں جبکہ مختلف دیہاتوں میں گھروں کو جلانے کا خطرہ ہے۔
’حکومت نام کی کوئی چیز نہیں کہ اس خونریزی اور قتل و غارت کو پر قابو پایا جا سکے۔‘
انہوں نے سیزفائر کے حکومتی اعلان کو ’جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی قسم کی فائر بندی نظر نہیں آ رہی بلکہ جھڑپیں بڑھ گئی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
21 نومبر کو لوئر کرم کے علاقہ مندوری اوچت میں گاڑیوں کے قافلوں پر گھات لگا کر حملے میں 42 افراد کی موت کے بعد علاقے میں جھڑپوں کے دوران مزید 24 افراد مارے گئے ہیں۔
یوں علاقے میں 21 نومبر کے بعد سے اب تک 66 اموات اور کم از کم 120 زخمیوں کی تصدیق ہوئی ہے۔
علاقے میں کشیدہ صورت حال کے باعث ٹل پاڑہ چنار مرکزی شاہراہ ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہے جبکہ انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔
ضلع کرم میں جھڑپوں اور ایندھن نہ ہونے کے باعث تمام تر تعلیمی ادارے بند ہیں جبکہ کوہاٹ تعلیمی بورڈ نے علاقے میں ایف اے اورایف ایس سی سالانہ دوئم کے امتحانات ملتوی کردیے ہیں۔
انڈپیںڈنٹ اردو نے سیز فائر کے حکومتی اعلان کے باوجود متحرب گروہوں میں جھڑپوں کے حوالے سے علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر محمد سیف نے اتوار کو ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ حکومتی کوششوں سے فریقین کے درمیان سات دنوں کے لیے فائر بندی ہو گئی ہے۔