کرم: فائر بندی کے حکومتی اعلان کے باوجود جھڑپیں، ’مزید اموات کا خدشہ‘

کرم میں پولیس اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جھڑپیں کسی خاص علاقے تک محدود نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں جاری ہیں اور جانی نقصان کا خدشہ ہے۔

پاکستانی شہری 23 جون، 2017 کو کرم کے علاقے پاڑا چنار کی ایک سڑک پر جمع ہیں (اے ایف پی)

صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے پرتشدد واقعات میں گھرے ضلع کرم میں سات روزہ فائر بندی کے اعلان کے باوجود پیر کو فریقین میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔

کرم پولیس کنٹرول روم کے ایک پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ضلعے کے مختلف علاقوں میں فریقین کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔
 
انہوں نے بتایا کہ جھڑپیں کسی خاص علاقے تک محدود نہیں بلکہ مختلف علاقوں میں جاری ہیں، جس میں جانی نقصان کا خدشہ ہے۔ 
 
پولیس اہلکار کے مطابق، ’ہمارے پاس ابھی تک تصدیق شدہ اعدادوشمار موصول نہیں ہوئے البتہ جھڑپیں مسسلسل جاری ہیں۔‘

لوئر کرم کے علاقے بگن سے تعلق رکھنے والے ایک رہائشی نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ حالات بہت کشیدہ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں جبکہ مختلف دیہاتوں میں گھروں کو جلانے کا خطرہ ہے۔

’حکومت نام کی کوئی چیز نہیں کہ اس خونریزی اور قتل و غارت کو پر قابو پایا جا سکے۔‘

انہوں نے سیزفائر کے حکومتی اعلان کو ’جھوٹ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کسی قسم کی فائر بندی نظر نہیں آ رہی بلکہ جھڑپیں بڑھ گئی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

21 نومبر کو لوئر کرم کے علاقہ مندوری اوچت میں گاڑیوں کے قافلوں پر گھات لگا کر حملے میں 42 افراد کی موت کے بعد علاقے میں جھڑپوں کے دوران مزید 24 افراد مارے گئے ہیں۔

یوں علاقے میں 21 نومبر کے بعد سے اب تک 66 اموات اور کم از کم 120 زخمیوں کی تصدیق ہوئی ہے۔

علاقے میں کشیدہ صورت حال کے باعث ٹل پاڑہ چنار مرکزی شاہراہ ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہے جبکہ انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔

ضلع کرم میں جھڑپوں اور ایندھن نہ ہونے کے باعث تمام تر تعلیمی ادارے بند ہیں جبکہ کوہاٹ تعلیمی بورڈ نے علاقے میں ایف اے اورایف ایس سی سالانہ دوئم کے امتحانات ملتوی کردیے ہیں۔

انڈپیںڈنٹ اردو نے سیز فائر کے حکومتی اعلان کے باوجود متحرب گروہوں میں جھڑپوں کے حوالے سے علاقے کے ڈپٹی کمشنر سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر محمد سیف نے اتوار کو ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ حکومتی کوششوں سے فریقین کے درمیان سات دنوں کے لیے فائر بندی ہو گئی ہے۔

بیرسٹر سیف کے مطابق تصفیے کے لیے کام کرنے والے جرگے کے اراکین مشران سے ملے، جس کے بعد فائر بندی کے علاوہ اس بات پر بھی اتفاق ہوا کہ وہ ایک دوسرے کے قیدی اور لاشیں واپس کریں گے۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان