یہ مقابلہ ’انسان بمقابلہ مشین‘ کے طور پر پیش کیا گیا جس میں دکھایا گیا کہ مصنوعی ذہانت عملی میدان میں انسانوں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
اس کی تقریباً 30 دہائیوں کے بعد، جب گیری کاسپاروف نے آئی بی ایم کے ڈیپ بلیو کمپیوٹر کے ساتھ شطرنج کھیلی، ایک اور روسی چیمپیئن سابق فارمولہ ون ڈرائیور ڈینیل کویات ڈرائیور کے بغیر چلنے والی کار کے ساتھ ریس میں مقابلے کے لیے تیار تھے۔
لیکن جاپان کے علاقے سوزوکا میں نومبر کی ایک ابرآلود ایک صبح، یہ جلد ہی واضح ہو گیا کہ کم از کم اس ٹریک پر، مصنوعی ذہانت انسانوں کو پیچھے چھوڑنے کے قریب نہیں۔ ڈرائیور کے بغیر چلنے والی کار دوڑ شروع ہونے سے پہلے ہی حادثے کا شکار ہو گئی۔
مصنوعی ذہانت سے چلنے والی فارمولہ کار جو کویات کی گاڑی جیسی تھی لیکن اس میں 90 کلوگرام کا کمپیوٹر نصب تھا، ریس شروع ہونے کے مقام کی طرف جاتے ہوئے ایک موڑ پر توازن برقرار نہ رکھ سکی۔ حادثے کے نتیجے میں گاڑی کے پچھلے ٹائر اور سسپنشن نظام خراب ہو گیا اور اسے ٹرک کے ذریعے گیراج واپس لے جانا پڑا۔
کار بنانے والی ٹیم نے حادثے کی وجہ تنگ موڑ کاٹتے ہوئے ’زیادہ وہیل سپن‘ کو قرار دیا، جو ’ٹائروں کے متوقع سے کم درجہ حرارت اور دباؤ کی کمی کے باعث ہوا۔‘ یہ حادثہ ظاہر کرتا ہے کہ خودکار ٹیکنالوجی ابھی ٹریک کے بدلتے ہوئے حالات کو سمجھنے میں محدود ہے۔
ایک ماہر ڈرائیور فوراً محسوس کر لیتا ہے کہ گاڑی کے پچھلے ٹائر سلپ ہونے لگے ہیں یا دیکھ لیتا ہے کہ ایک ٹائر باقیوں کی نسبت زیادہ خراب ہو چکا ہے۔ یہی ’احساس کو ڈیٹا میں تبدیل کرنے‘ کے عمل میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یہ بات اے آر آر سی۔ ٹی آئی آئی کی ٹیم کے سربراہ نے بتائی نے جس نے حادثے کا شکار ہونے والی اے آئی کار تیار کی۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ہمیں اسے ایک دو سال کے بچے کی طرح سمجھنا ہوگا جو ابھی چلنا سیکھ رہا ہے۔ دوڑنے کے قابل ہونے سے پہلے اسے چیزوں کو سمجھنے میں وقت لگے گا۔‘
کاک پٹ میں موجود کمپیوٹر پہلے ہی ہر منٹ میں ایک ٹیرا بائٹ سے زیادہ ڈیٹا پروسیس کر رہا ہوتا ہے جو کار کے گرد نصب سات کیمروں، چار ریڈارز، اور بے شمار سینسرز سے آ رہا ہوتا ہے۔ سافٹ ویئر کی مزید بہتری اور ہارڈ ویئر میں کچھ ترقی کے ساتھ، پاؤ کا ماننا ہے کہ بات جلد ہی بہترین انسانی ڈرائیورز کے برابر پہنچ جائے گی۔
اے آئی کار بنانے والی ٹیم کے سربراہ جو ابو ظہبی کے ٹیکنالوجی انوویشن انسٹی ٹیوٹ میں آٹونومس روبوٹکس کے پروفیسر بھی ہیں، نے کہا کہ ’ایک سال میں یہ کسی انسانی ڈرائیور جتنا تیز ہو جائے گا۔ اور دو سال میں یہ پیشہ ور ریسرز کے ساتھ محفوظ مقابلے کے قابل ہو جائے گا۔‘
مستقبل کے اس نئے موٹرسپورٹ کا ایک تصور یہ ہے کہ 10 انسانی ڈرائیورز اور 10 اے آئی ڈرائیورز کو ایک ہی ٹریک پر دوڑایا جائے، شاید انہیں ٹیم میٹ بھی بنایا جائے۔ ڈینیل کویات، جنہوں نے کبھی موجودہ فارمولا ون چیمپیئن میکس ورسٹاپن کی کار جیسی کار میں ریس لگائی، کے لیے اے آئی کار کے ساتھ مقابلے میں ریس لگانے میں کوئی مسئلہ نہیں۔
انہوں نے ملتوی ہو جانے والی کار ریس سے قبل دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’میں یہ نہیں سوچتا کہ میں کس ڈرائیور کا مقابلہ کر رہا ہوں۔ میں صرف ایک رکاوٹ دیکھتا ہوں اور اسے عبور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن ہاں، یہ غیر معمولی بات ہے کہ معلوم ہو کہ ڈرائیور ہی موجود نہیں۔‘
دنیا کی 12 ٹیمیں پہلے ہی اے ٹو آر ایل، پہلی اے آئی کار ریسنگ لیگ کے لیے اے آئی کاریں تیار کر رہی ہیں، جس کی افتتاحی تقریب اس سال ابو ظہبی میں ہوئی۔ یاس مرینا سرکٹ پر منعقد ہونے والا یہ ایونٹ اے آئی ریسنگ کے تصور کی ایک بڑی حد تک کامیاب نمائش تھی، لیکن اس میں بھی کچھ تکنیکی مسائل سامنے آئے۔
جب ایک کار پتھروں سے بھرے علاقے میں پھنس گئی تو اس نے پیلے جھنڈے کا اشارہ دیا جس کا مطلب تھا کہ ٹریک پر موجود کسی بھی گاڑی کو ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی اجازت نہیں۔ یہ حفاظتی ہدایت اے آئی کاروں میں پہلے سے موجود تھی لیکن انہوں نے اسے بہت زیادہ سنجیدگی سے لے لیا اور خراب کار کے پیچھے قطار بنا لی۔
رواں ہفتے کے آخر میں سوزوکا میں ہلہ گلہ دکھائی دیا۔ اے آئی کار بمقابلہ اے آئی کار ریس نے تیز رفتار سنسنی کا موقع دیا اور بغیر ڈرائیور ریسنگ کی حدود کو مزید آگے بڑھایا۔ تاہم مصنوعی ذہانت غیر متوقع چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور انسان بمقابلہ مشین کے مقابلے میں کچھ مسائل بھی دیکھے گئے۔
ایسے مسائل پر قابو پانا ان کاروں کی تیاری میں ایک ناگزیر حصہ ہے، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں کہ لوگ واقعی اس طرح کی ریس دیکھنا چاہیں گے یا نہیں۔
ابو ظبی میں ہونے والی اس ریس کو دیکھنے 10 ہزار لوگ آئے لیکن اسے حقیقی انسانی ریس کے برابر سمجھنا شاید درست نہ ہو۔ یہ زیادہ تر ڈیپ بلیو اور کاسپاروف کے مقابلے کے وقت پیدا ہونے والی دلچسپی جیسا ہے۔ ایک مشین کا کسی نئے میدان میں انسان کے ساتھ مقابلہ ہمیشہ دلچسپی پیدا کرے گا، لیکن لوگ اب کمپیوٹروں ایک دوسرے کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے نہیں دیکھتے، چاہے وہ انسانوں سے کہیں زیادہ بہتر ہو چکے ہوں۔
آکسفورڈ کے فلسفی نک باسٹرم، جن کی 2014 کی مشہور کتاب سپرانٹیلی جنس نے اس وقت سٹیفن ہاکنگ، بل گیٹس اور ایلون مسک کو مصنوعی ذہانت کے حقیقی خطرات سے خبردار ہونے پر مجبور کیا تھا، نے حال ہی میں ایک ایسے مستقبل کا تصور پیش کیا جہاں تقریباً کچھ بھی ایسا نہ ہو جو انسان کر سکیں اور مصنوعی ذہانت اسے بہتر انداز میں نہ کر سکے۔
لیکن انہوں نے نوٹ کیا کہ حتیٰ کہ اس ’ٹیکنالوجی کے معاملے میں بالغ‘ معاشرے میں بھی کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کے معاملے میں روبوٹ کبھی انسانوں کی جگہ نہیں لے سکیں گے، جیسے بچے کی والدین کے لیے بنائی گئی ڈرائینگ۔ اسی طرح ایک اور چیز انسانوں کی دوسرے انسانوں سے مقابلہ کرنے کی فطری خواہش ہے، چاہے وہ خود حصہ لیں یا دیکھنے والے ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موضوع پر اس سال دی انڈپینڈنٹ کے ساتھ انٹرویو میں پروفیسر باسٹرم نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اے آئی کھیلوں کو روایتی کھیلوں کے درمیان ایک جگہ مل سکتی ہے لیکن ان کے انسانی کھلاڑیوں کی جگہ لینے کا امکان نہیں۔
انہوں نے کہا: ’اگر مختلف کمپنیاں یا ٹیمیں روبوٹ بنائیں، جن کے وسائل تقریباً برابر ہوں، تاکہ ایک حقیقی اور دلچسپ مقابلہ ہو سکے، تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک خاص میدان بن سکتا ہے۔ لیکن میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ زیادہ تر لوگ انسانوں کو ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے دیکھنے کو ترجیح دیں گے۔‘
اے آئی ریس میں ڈرون، ریت پر دوڑنے والی گاڑیوں اور کشتیوں کے مقابلے شروع کرنے کے منصوبے بھی ہیں، لیکن بات صرف مقابلے کی نہیں۔ آٹونومس ریسنگ لیگ کا مقصد اے آئی گاڑیوں اور مصنوعی ذہانت میں تحقیق کی حدود کو پھیلاتے ہوئے ’ریس ٹو روڈ‘ کے ذریعے ڈرائیور کے بغیر ڈرائیونگ کا فروغ ہے۔
یہ آخری موقع نہیں ہوگا جب اے آئی کسی انسانی ریس ڈرائیور کا سامنا کرے گی۔ جس طرح کمپیوٹر کو گیری کاسپاروف کو شکست دینے میں کئی دہائیاں لگیں، حالیہ برسوں میں ہونے والی حیران کن ترقی یہ ظاہر کرتی ہے کہ شاید وہ وقت دور نہیں جب اے آئی کسی جسمانی مقابلے میں انسان کو شکست دے دے۔
ایک دہائی قبل، ہیلسنکی کے ایک ویئر ہاؤس نے پہلی بار کوڈنگ ورلڈ چیمپئن شپ کی میزبانی جس میں ٹیموں نے بغیر ڈرائیور گاڑیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کے لیے پروگرام کیا۔ گاڑیاں اور ٹریک سب ورچوئل تھے، کیونکہ اس وقت یہ تصور کرنا بھی ممکن نہیں تھا کہ ایسا کام حقیقی دنیا میں ہو سکتا ہے۔ لیکن تین سال کے اندر، حقیقی گاڑیاں حقیقی سڑکوں پر دوڑ رہی تھیں، چاہے آہستہ ہی سہی۔
اے آئی بمقابلہ اے آئی دوڑ جو انسان بمقابلہ اے آئی مقابلے سے قبل ایک صبح ہوئی، میں گاڑیوں کی رفتار دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ تک پہنچ رہی تھی۔ اگر کاک پٹ میں ہیلمٹ دکھائی دے رہے ہوتے، تو یہ گاڑیاں ان گاڑیوں کی طرح دکھائی دیتیں جنہیں ڈرائیور چلا رہے ہوتے ہیں۔
اگر یہ ’چلنا سیکھنے‘ کا مرحلہ ہے، جیسا کہ پروفیسر پاؤ نے کہا، تو فی الحال اسے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ اگرچہ سوزوکا سرکٹ پر موجود تماشائیوں کو وہ شاندار ریس دیکھنے کو نہیں ملی جو کبھی ایف ون ڈرائیور ایٹن سینا اور ایلن پروسٹ نے یہاں پیش کی، لیکن انہوں نے ایک بالکل نئے کھیل کے ابتدائی قدم ضرور دیکھے۔
© The Independent