بیلاروس کے صدر الیکساندر لوکاشینکو پیر کو پاکستان پہنچ رہے ہیں، جب کہ بیلاروس کا 68 رکنی وفد پہلے ہی پاکستان کے دورے پر ہے۔
اس دورے پر اس لیے بھی نظریں مرکوز ہو گئی ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے احتجاج کی وجہ سے اسلام آباد اور اس کے گردونواح کو مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے اور معمولاتِ زندگی درہم برہم ہو کر رہے گئے ہیں۔
بہت سے پاکستانیوں کو بیلاروس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، سوائے اس کے یہ روس کا اتحادی ہے، جس کا اشارہ اس ملک کے نام ہی میں موجود ہے، حالانکہ بیلاروس کے پاکستان کے ساتھ پرانے معاشی تعلقات ہیں، اور وہاں کی مصنوعات آپ نے پاکستانی کھیتوں میں چلتے دیکھی بھی ہوں گی، اور توقع ہے کہ جلد ہی سڑکوں پر بھی چلتے ہوئے دیکھیں گے۔
تعلقات کی تفصیل میں جانے سے پہلے ذرا ملک کے نام ہی کا ذکر کر لیتے ہیں۔ بیلا کا مطلب ہے سفید، تو بیلا روس کا مطلب ہوا سفید روس۔ اب اسے سفید روس کیوں کہتے ہیں اس بارے میں علما میں اختلاف ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہاں کے باشندے زیادہ تر سفید لباس پہنتے تھے، دوسرے کہتے ہیں کہ سفید رنگ مغرب کے ساتھ مخصوص ہے اور چونکہ یہ ملک روس کے مغرب میں ہے، اس لیے اسے سفید روس کہا جانے لگا۔
نقشے پر دیکھیں تو بیلاروس خشکی سے گھرا چھوٹا سا ملک ہے جس کا رقبہ دو لاکھ سات ہزار مربع کلومیٹر ہے، یعنی تقریباً ہمارے پنجاب صوبے جتنا، مگر آبادی بہت کم، یعنی 91 لاکھ کے قریب ہے۔
روس کا قریبی ساتھی
بیلاروس روس کا قریبی اتحادی ہے اور اس نے روس کے یوکرین پر حملے کے دوران روس کی سفارتی اور عملی حمایت کی ہے۔
روس کے فوجی بیلاروس میں تعینات ہیں جو بیلاروسی سرزمین سے یوکرین پر حملے کرتے ہیں۔ اسی موقف کی وجہ سے امریکہ اور دوسرے مغربی ملکوں نے بیلاروس پر بھی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیلاروس 1991 تک سوویت یونین کا حصہ تھا۔ اس کے بعد یہاں آئین بنا اور پہلے انتخابات 1994 میں ہوئے، جن میں الیکساندر لوکاشینکو صدر بنے اور وہ آج تک اس عہدے پر فائز ہیں۔
تاہم ان پر اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ وہ غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنے اقتدار کو طول دے رہے ہیں۔
اکانومسٹ میگزین کی جمہوری درجہ بندی کے مطابق دنیا میں بیلاروس کا جمہوری نمبر 151 ہے، جب کہ یوکرین 91ویں اور پاکستان 118ویں نمبر پر موجود ہیں۔
70 سالہ لوکاشینکو نے مغربی معاشی پالیسیاں نہیں اپنائیں بلکہ زیادہ تر ادارے حکومتی کنٹرول ہی میں رکھے ہیں۔
وہ متنازع ریفرینڈم کروا کر اپنی پالسیوں کی تائید حاصل کر لیتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ’یورپ کا آخری ڈکٹیٹر‘ بھی کہا جاتا ہے۔
ان کے دور میں جو انتخابات ہوئے ان میں بڑے پیمانے پر بدعنوانیوں کا الزام لگتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ لوکاشینکو کو بیلاروس کا جائز صدر تسلیم نہیں کرتے۔
بیلاروس اور پاکستان تعلقات
یہ لوکاشینکو کا دوسرا دورۂ پاکستان ہے۔ اس سے قبل 2015 میں بھی لوکاشینکو پاکستان آئے تھے جب یہاں نواز شریف وزیرِ اعظم تھے۔ اس کے جواب میں تین مہینے بعد ہی نواز شریف نے بیلاروس کا دورہ کیا تھا۔
حال ہی میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں یوکرینی وزیرِاعظم آر اے گولووچینکو نے شرکت کی تھی۔
ان دوروں کے بعد دونوں ملکوں نے ایک مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا تھا جس کے تحت دونوں ملک صنعتی اور زرعی شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ اس گروپ کے اب تک چھ اجلاس ہو چکے ہیں۔
توقع ہے کہ بیلاروسی وفد کے دورے میں دونوں ملکوں کے اقتصادی تعاون کو مزید فروغ دیا جائے گا اور اس دوران متعدد معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔
ستمبر 2024 میں بیلاروس نے اسلام آباد کو الیکٹرک بسیں فراہم کرنے اور چارجنگ سٹیشن لگانے میں دلچسپی ظاہر کی تھی۔
بیلاروس کے نائب وزیر برائے صعنت الیکسے کشنارینکو نے اسلام آباد میں سی ڈی اے کے چیئرمین سے ملاقات کی تھی۔ فی الحال اسلام آباد میں چینی ساختہ الیکٹرک بسیں چل رہی ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بیلاروس یہ بسیں پاکستان کو نرم شرائط پر دے گا۔
توقع ہے کہ بیلاروسی وفد کے دورے میں اس معاملے پر مزید پیش رفت ہو گی۔
منسک میں پاکستانی سفارت خانے کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 38 پاکستانی طلبہ بیلاروس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ تعلیم کے شعبے میں بھی پاکستان اور بیلاروس کے درمیان تعلقات کو وسعت دی جائے گی۔
پاکستان باسمتی چاول، چمڑے کا سامان اور ٹیکسٹائل مصنوعات بیلاروس کو برآمد کرتا ہے۔
بیلاروس کی زیادہ تر برآمدات مکینیکل انجینیئرنگ کے شعبے میں ہیں کیوں کہ یہاں سوویت دور ہی سے ہیوی انڈسٹری قائم ہے۔
پاکستان اور بیلاروس کے درمیان صرف پانچ کروڑ ڈالر کی تجارت ہوتی ہے، جس میں بیلاروس کا حصہ ساڑھے تین کروڑ جب کہ پاکستان کا حصہ ڈیڑھ کروڑ ہے۔
پاکستان بیلاروس سے ٹریکٹر (53 فیصد) کھادیں (17.7 فیصد)، اسلحہ (10.2فیصد) منگواتا ہے، جب کہ بیلاروس کو ان سلا کپڑا (22 فیصد)، چاول (11.8 فیصد)، پھل (11.3 فیصد) برآمد کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ دو طرفہ تجارت کا یہ حجم بہت کم ہے جس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
پاکستان ایک عرصے سے بیلاروسی ٹریکٹر بنا رہا ہے۔ یہ سلسلہ 1962 میں صدر ایوب کے دور میں شروع ہوا تھا جب بیلاروس سوویت یونین کا حصہ تھا۔
فیکٹو اس وقت آٹھ مختلف ماڈل کے ٹریکٹر تیار کر رہا ہے جن میں بیلاروس 800، اور بیلاروس 510 کے علاوہ ایم ٹی زیڈ وغیرہ شامل ہیں۔
فیکٹو کی ویب سائٹ کے مطابق وہ اب تک پاکستان میں ایک لاکھ سے زیادہ ٹریکٹر تیار کر چکا ہے، اس لیے عین ممکن ہے آپ نے بھی پاکستانی کھیتوں میں بیلاروس کے ٹریکٹر چلتے ہوئے دیکھے ہوں۔