دوست کے مبینہ قتل کو اغوا برائے تاوان کا رنگ دینے والا ملزم گرفتار

ایس ایچ او گلبرگ تیمور عباس کا مزید کہنا تھا کہ ملزم کے ذہن میں تھا کہ وہ مقتول کی لاش کو نہر میں ٹھکانے لگا دے گا اور نعش کسی کو ملے گی نہیں، اور پولیس اغوا برائے تاوان کا ملزم ڈھونڈتی رہے گی اور وقت کے ساتھ واقعہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔

13 اکتوبر 2020 کو لاہور میں پولیس موبائل عدالت کے احاطے سے باہر نکلتے ہوئے (اے ایف پی / عارف علی)

لاہور پولیس کے مطابق والٹن کے رہائشی 30 سالہ بینک ملازم کو دوست نے ’مبینہ طور پر پیسوں کے تنازع پر پہلے قتل کیا اور پھر قتل کو چھپانے کے لیے اغوا برائے تاوان کا رنگ دے دیا۔‘

تھانہ گلبرگ کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) تیمور عباس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مقتول احسن سلیم ایک بینک میں کام کرتے تھے اور گرفتار ملزم عبداللہ شاہد ان کے دوست اور ہمسائے بھی تھے۔

تیمور عباس نے بتایا: ’ابتدائی تحقیقات کے مطابق مقتول نے قاتل سے کچھ پیسے لینے تھے اور اسی تنازع کو لے کر ان کا جھگڑا ہوا اور قاتل نے پستول سے اس پر گولی چلا دی جو مقتول کے سر پر لگی اور وہ موقع پر جان سے چلے گئے۔‘

’بات کھل جائے گی، اسی ڈر سے قاتل نے اسے اغوا برائے تاوان کا رنگ دے دیا اور مقتول کے گھر والوں سے مقتول کے ہی واٹس ایپ سے میسج کر کے انہی کے بینک اکاؤنٹ میں دو مرتبہ 50، 50 ہزار روپے منگوائے جو قاتل نکلوا نہیں سکتا تھا کیونکہ پیسے مقتول کے اکاؤنٹ میں جا رہے تھے۔ اسی طرح قاتل نے اصل کہانی کو اغوا برائے تاوان کی طرف موڑ دیا۔‘

ایس ایچ او گلبرگ تیمور عباس کا مزید کہنا تھا کہ ملزم کے ذہن میں تھا کہ وہ مقتول کی لاش کو نہر میں ٹھکانے لگا دے گا اور نعش کسی کو ملے گی نہیں، اور پولیس اغوا برائے تاوان کا ملزم ڈھونڈتی رہے گی اور وقت کے ساتھ واقعہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔

تیمور عباس نے بتایا کہ جب ہمیں یہ واقعہ رپورٹ ہوا تو مقتول کے گھر والوں نے ہمیں درخواست دی اور اغوا کا مقدمہ مقتول کے بھائی کی مدعیت میں درج کرلیا گیا۔

’ہم نے فوری علاقے کے ارد گرد کی مقامی سی سی ٹی وی اور سیف سٹی اتھارٹی کی فوٹیج اکٹھی کی۔ اس فوٹیج میں ہمیں مقتول انفرادی طور پر اپنی موٹر سائیکل پر جاتا دکھائی دیا اور اغوا کے کوئی آثار ہمیں دکھائی نہیں دیے اور نہ ہی یہ خاندان ایسا تھا کہ ان کی کسی سے دشمنی ہو۔ یعنی ہمیں کوئی ایسا ثبوت نہیں مل رہا تھا جو یہ ظاہر کرتا کہ یہ اغوا کا کیس ہے۔‘

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’پھر ہم نے مقتول کے جاننے والوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کیں جس میں ہمیں معلوم ہوا کہ ان کے ایک دوست نے ان کے پیسے دینے ہیں، جس کے بعد ہم نے مبینہ قاتل کو پکڑا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر قاتل نے انکار کیا، ’لیکن جب ہم نے ان کی چیزیں دیکھیں تو ان کے موبائل فون سے مقتول کے ڈیبٹ کارڈ کی ایک تصویر ملی، وہاں سے ہمارا شک یقین میں تبدیل ہوا، جس کے بعد ہم نے مزید تفتیش کی تو قاتل نے مان لیا کہ انہوں نے مقتول کو قتل کرکے ان کی نعش جلو موڑ کے قریب نہر میں پھینک دی ہے۔‘

تیمور عباس نے بتایا کہ ہربنس پورہ کے قریب نہر سے نعش ملنے کی اطلاع 15 پر موصول ہوئی تھی، جو وہاں کی مقامی پولیس نے برآمد کی۔ ہم نے مقامی پولیس سے رابطہ کیا، جنہوں نے ہمیں نعش کے بارے میں بتایا۔ پھر ہم نے ڈیٹا اکٹھا کیا تو معلوم ہوا کہ یہ نعش اسی مقتول کی ہے جس کی رپورٹ ہمارے پاس درج ہوئی تھی۔

انہوں نے بتایا: ’جس گاڑی میں وقوعہ ہوا تھا، ہم نے وہ گاڑی بھی ڈھونڈ لی۔ پھر مقتول کی موٹر سائیکل بھی قاتل سے ملی اور اس طرح چھ سے آٹھ گھنٹے میں یہ اندھا قتل ٹریس آؤٹ ہوا۔‘

تیمور عباس نے بتایا کہ 24 نومبر کو الصبح ہمیں کال موصول ہوئی تھی اور ہم دوپہر ایک دو بجے تک یہ کیس سلجھا چکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ابھی تک ملزم سے ابتدائی معلومات حاصل کی گئی ہیں، لیکن اس کی مزید تفتیش جاری ہے اور ’ہم اس میں دیکھیں گے کہ کیا اس میں اور کوئی کردار تو موجود نہیں ہیں اور ان کی عناد کی اصل وجہ کیا ہے۔ ابتدائی طور پر تو لین دین ہے، لیکن تفتیش کا دائرہ کار جب بڑھے گا اور ان کی کالز کا ڈیٹا بھی حاصل ہو جائے گا تو چیزیں کسی اور سمت میں بھی جا سکتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان