برطانیہ میں قیدیوں کو مقدمے کی سماعت سے پہلے پانچ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے انتظار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کیونکہ عدالت میں بڑھتے ہوئے زیرالتوا مقدمات کی وجہ سے ریمانڈ پر جیل میں موجود قیدیوں کی تعداد ریکارڈ حد تک بڑھ گئی ہے۔
وزارت انصاف کے اعداد و شمار کے مطابق 30 جون تک تقریبا 15 ہزار 523 افراد عدالت سے سزا پائے بغیر بھری ہوئی جیلوں میں قید تھے جو 50 سال کی بلند ترین سطح اور گذشتہ سال کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ ہے۔
فلاحی ادارے فیئر ٹرائلز کی جانب سے فریڈم آف انفارمیشن قوانین کے تحت حاصل کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 31 دسمبر تک کم از کم 150 لوگوں (تمام مرد) نے عدالت میں پیش ہونے سے پہلے پانچ سال گزارے تھے جن میں سے 33 فیصد سیاہ فام مرد تھے۔
تقریباً دو ہزار قیدی ایک سال سے زائد عرصے سے ریمانڈ پر ہیں۔ مزید 2500 افراد کو چھ ماہ سے زیادہ عرصے تک قید میں رکھا گیا تھا ، جس کے بعد جج کو توسیع کی منظوری دینی پڑتی ہے۔
ایک بڑے وکیل نے متنبہ کیا چونکہ کراؤن کورٹس کے مقدمات بھی چار برسوں میں دوگنا ہوکر ایک نئے ریکارڈ تک پہنچ گئے ہیں، کچھ مدعا علیہان اپنے بے گناہ ہونے پر اصرار کرنے کے باوجود جرائم کا اعتراف کر رہے ہیں کیونکہ وہ جلد ہی جیل سے رہا کر دیے جائیں گے۔
یہ برطانیہ کے نظام انصاف کی حالت پر تازہ ترین چونکا دینے والا الزام ہے۔
مقدمات کی کثرت اورعملے کی قلت پر تشویش کے دوران گذشتہ ہفتے ایچ ایم پی وانڈس ورتھ سے دہشت گرد ڈینیئل خلیف کے فرار ہونے کے بعد جلییں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔
1997 سے 2001 کے درمیان لیبر پارٹی کے ہوم سیکریٹری رہنے والے جیک سٹرا نے ٹوری حکومت پر الزام لگاتے ہوئے کہا، جہاں تک مجھے یاد ہے اس حکومت کے زیرانتظام یہ فوجداری نظام انصاف میں سب سے سنگین بحران ہے۔
لوگوں کو بغیر کسی مقدمے کے جیل میں اتنے لمبے عرصے تک رکھنا ’مضحکہ خیز‘ اور ’سراسرغیرمعمولی‘ تھا۔
ٹوری پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رابرٹ بکلینڈ، جنہوں نے ستمبر 2021 تک دو سال تک وزیر انصاف کے طور پر خدمات انجام دیں، نے ان مقدمات کی ’جانچ پڑتال اور واضح طور پر وضاحت‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ ’لوگوں کو مناسب وجہ کے بغیربرسوں تک ریمانڈ پر نہیں رہنا چاہیے۔‘
وزارت انصاف کے ترجمان کا کہنا تھا کہ طویل عرصہ تک زیر التوا مقدمات میں بنیادی طور پر پیچیدہ فراڈ شامل ہوتا ہے یا مدعا علیہان کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، جن پر مقدمہ چلانے میں عام طور پر کافی وقت لگتا ہے۔
بلیئر دور کے وزیر انصاف لارڈ فالکنر نے کئی برسوں سے جاری ریمانڈ کے انتظار کو ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کو ایک ہنگامی منصوبے کی ضرورت ہے کیونکہ ہم یہ طویل تاخیرمزید جاری نہیں رہنے دے سکتے۔‘
انہوں نے غیر متشدد مشتبہ افراد کے لیے ٹیگنگ کے استعمال اور زیادہ سے زیادہ ’عارضی عدالتوں‘ زور دیا جبکہ مسٹر سٹرا کا کہنا تھا کہ وزرا ’مزید عدالتوں کو فعال کرنے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں جن میں ریٹائرڈ اور جزوقتی ججوں‘ کا استعمال بھی شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہاورڈ لیگ فار پینل ریفارم سے وابستہ روب پریس کا کہنا ہے کہ مقدمے کی سماعت کے منتظر قیدیوں کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد میں اضافے کا بحران ’سب سے زیادہ شدید ہے۔‘
انہوں نے طویل ’کافکاسک‘ ریمانڈ کی مدت کا موازنہ غیر معینہ مدت کی قید کی سزاؤں سے کیا، جسے 2012 میں ختم کر دیا گیا تھا اور گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے تشدد نے اس پر تنقید کی تھی۔
سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جون تک، جنہیں ریمانڈ پر رکھا گیا ان کا پانچواں حصہ ایسے افراد ہیں جن پر منشیات کے جرائم کا الزام تھا۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مقدمے کا انتظار کرنے والے صرف 32 فیصد افراد کو مبینہ طور پر پرتشدد جرائم کی پاداش میں حراست میں لیا گیا۔
ایچ ایم پی وانڈس ورتھ کے سابق سکیورٹی چیف ایان ایچسن کا کہنا ہے کہ زیر دباو کیٹیگری بی لندن جیل ان جیلوں میں سے ایک ہے جو ریمانڈ کے بڑھتے ہوئے مقدمات کے اضافی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریمانڈ کا نظام ’راہ فرار کا مظاہرہ‘ ہے اور غیر متشدد مشتبہ افراد کو پانچ سال تک حراست میں رکھنا ’ریاستی طاقت کا ناقابل قبول استعمال‘ ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ جو لوگ ریمانڈ پر ہیں ان کی غیر یقینی حیثیت کی وجہ سے اکثر خود کو نقصان پہنچانے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
ٹوری جسٹس کمیٹی کے سربراہ سر باب نیل نے متنبہ کیا ہے کہ قیدیوں کی ریکارڈ تعداد میں اضافے سے جیل افسران پر مزید دباؤ پڑ رہا ہے۔
سر باب نے کہا کہ بے گناہ لوگوں کو اہل خانہ سے ملوائے یا بحالی کی سکیموں کے بغیر جیلوں میں بند کرنے سے’تشدد کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔‘
فیئر ٹرائلز کے سینیئر لیگل اینڈ پالیسی آفیسر گریف فیرس نے کہا کہ اس صورت حال کی وجہ سے ’ذہنی صحت کا بحران پیدا ہو گیا ہے اور ریمانڈ کے قیدیوں میں خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانا بڑھ رہا ہے کیونکہ لوگ نا امید ہو رہے ہیں۔‘
مسٹر فیرس نے کہا، ’ریمانڈ کے قیدیوں کا شمار اکثر ان میں ہوتا ہے جو لوگ اپنے سیلز میں دن کے23 گھنٹے تک قید تنہائی کے ’خوفناک‘ حالات میں بند رہتے ہیں، ’اہل خانہ یا پیاروں کو فون کرنے، ورزش کرنے یا نہانے میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور تعلیم اور بحالی کے دیگر پروگراموں تک رسائی سے نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ’بنیادی ڈھانچے اور قانونی مدد ختم کر کے ریمانڈ کے بحران میں فعال کردار ادا کر رہی ہے‘ اور کہا انہیں یقین ہے کہ لیبر پارٹی نے جرائم کے متعلق نرمی کے خوف سے وزرا کو چیلنج کرنے کے لیے ’کوئی معنی خیز قدم اٹھانے سے گریز کیا ہے۔‘
شیڈو جسٹس سیکریٹری شبانہ محمود نے دعویٰ کیا کہ ’حکومت اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر سکتی‘، لیبر پارٹی کراؤن پراسیکیوٹرز کی تعداد میں کم از کم نصف اضافے کے لیے ’فوری اقدامات کرے گی‘ اور ایسی جیلیں تعمیر کرے گی جن کا وعدہ ٹوریوں نے نہیں کیا۔
دیتا سالیوکا نے خبردار کیا، ’ہماری جیلیں غیر محفوظ اور صحت کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے قاصر ہیں،‘ ان کے بھائی 29 سالہ لیریڈن نے اپنے مقدمے کی سماعت مزید چھ ماہ آگے چلے جانے کے ہفتوں بعد دو جنوری 2020 کو ایچ ایم پی بیلمارش میں خودکشی کر لی تھی۔ وہ پانچ ماہ پہلے ہی انتظار کر چکے تھے۔
سالویکا نے متنبہ کیا کہ جن لوگوں کی مدت ریمانڈ ان کے بھائی کی طرح بڑھا دی جاتی ہے ’وہ انتظار کر کر کے ناامید ہو جاتے ہیں۔‘
بالآخر بری ہونے والوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، انہوں نے مزید کہا: ’آپ برسوں تک جیل میں رہتے اور پھر آپ کو بے قصور پائے جاتے ہیں- اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ آپ اپنا خاندان، اپنی نوکری، گھر، روزگار، تعلقات کھو سکتے ہیں۔ آپ کو ان میں سے کچھ بھی واپس نہیں ملتا ہے، آپ کو کچھ بھی نہیں ملتا۔‘
اس کے برعکس لا سوسائٹی کے نائب صدر رچرڈ ایٹکنسن کے بقول ’یقینی طور پر ایسے کیسز بھی موجود ہیں،‘ جن میں مدعا علیہان کو اپنی ممکنہ سزا سے زیادہ وقت تک ریمانڈ پر گزارنا پڑتا ہے۔ وکلا کے مشورے کے برعکس کچھ لوگوں نے جلد باہر نکلنے کے لیے مجرم ہونے کا انتخاب کیا۔
مسٹر ایٹکنسن نے کہا، ’آپ کو موکلین سے کہنا چاہیےکہ ’مقدمے کی سماعت سے قبل آپ شاید چھ سے آٹھ ماہ جیل میں رہیں،‘ جس پر وہ ’عملی‘ لیکن غیر مناسب موقف اختیار کرسکتے ہیں کہ ’میں پھر ابھی اعتراف کر سکتا ہوں... یہ ہر حال میں ہار ہی ہے۔‘
اس ہفتے شائع ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بحران کو بڑھانے والے عدالت میں زیرالتوا مقدمات بھی جولائی میں 64 ہزار کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئے – حالانکہ حکومت نے اسے کم کرکے 53 ہزار کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ایک سینیئر قانونی ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ مارچ 2025 میں کیسز کی تعداد 75 ہزار تک پہنچنے کا امکان ہے۔
قانونی ذرائع کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال کراؤن کورٹس میں ایک لاکھ دن عدالت لگی تھی جو 2017-18 کے بعد سب سے زیادہ ہے لیکن یہ گذشتہ اپریل میں جسٹس سلیکٹ کمیٹی کی جانب سے تجویز کردہ ایک لاکھ 10 ہزار ایام کے مقابلے میں ’انتہائی کم‘ ہے اور اب زیرالتوا مقدمات کی تعداد 2018 کے مقابلے میں دوگنا ہوگئی ہے۔
جیل افسروں کی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری سٹیو گلن نے کہا کہ نتیجاتاً طویل ریمانڈ کی مدت ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ ہے۔ انہوں نے 2010 سے 2019 کے درمیان انگلینڈ اور ویلز میں نصف عدالتوں کو بند کرنے کے حکومت کے فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے۔‘
ایٹکنسن نے متنبہ کیا کہ ایسے وقت میں جب عدالتیں بحران کا شکار ہیں، مزید پولیس افسران کے لیے دباؤ اور سخت سزائیں دینے کا مطالبہ حکومت میں ’مشترکہ سوچ کی کمی‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
لا سوسائٹی کے بیرسٹر نے کہا، ’آپ کو مزید وسائل کی ضرورت ہے، لیکن ہمارے پاس عدالتوں، عدالت کی باقی عمارتوں میں سرمایہ کاری اور قانونی مدد میں کئی دہائیوں سے کٹوتی ہوئی ہے۔‘
ایم او جے نے کہا کہ وہ لامحدود عدالتی ایام، ریموٹ سماعتوں میں اضافے اور عارضی عدالتوں کو کھلا رکھ کر تیزی سے انصاف فراہم کرنے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا، ’جج حکومت سے آزادانہ طور پر ریمانڈ کے فیصلے کرتے ہیں، جس کی بنیاد دوبارہ جرم کرنے یا مفرور ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، لیکن اس حکومت نے فوجداری انصاف کے نظام میں امتیازی سلوک سے نمٹنے کے لیے کسی بھی دوسرے سے زیادہ کام کیا ہے، جس میں نسلی اقلیتی نوجوانوں کو جرائم سے دور کرنا اور ہماری دنیا کی معروف آزاد عدلیہ میں تنوع میں اضافہ کرنا شامل ہے۔‘
© The Independent