سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری اور اٹک جیل میں منتقلی کے بعد انہیں سی کلاس میں رکھا گیا ہے جبکہ ان کے وکلا کی جانب سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے کہ انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر کے اے کلاس دی جائے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ جیل کی ان مختلف کلاسوں میں کیا فرق ہے اور ان میں کیا سہولتیں ہیں۔
جیل قواعد کے مطابق جیلوں میں مختلف بیرکیں اور کلاسز ہوتی ہیں جس میں مجرموں کو ان کی سزاؤں اور حیثیت کے مطابق رکھا جاتا ہے۔
ان قوائد کے مطابق سیاسی مجرمان کو عمومی طور پر بی یا اے کلاس میں رکھا جاتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے سابق جج شاہ خاور سے اس حوالے سے بات کی کہ جیل میں کیٹیگریز کیسے بنائی جاتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ جیل کے قواعد میں موجود ہے۔
’سابق وزرا اعظم کو اے کلاس دی جاتی ہے جس میں مناسب سہولیات کے ساتھ کمرہ ہوتا ہے، ملازم بھی ملتا ہے۔ کمرے میں ٹی وی اور ائیر کنڈیشنر ہوتا ہے۔ موبائل رکھنے کی بھی اجازت ہوتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’جبکہ بی کلاس کی جیل میں بھی بیڈ کے ساتھ صاف ستھرا کمرہ ہوتا ہے، ایک مشقتی بھی میسر ہوتا ہے۔ کمرے میں ٹیلی ویژن بھی لگا ہوتا ہے لیکن ائیر کنڈیشنر کی سہولت غالباً نہیں ہوتی۔ بی اور اے کلاس میں وہی فرق ہے جو فائیو سٹار اور تھری سٹار ہوٹل میں ہوتا ہے۔‘
جب ان سے کہا گیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وہ ڈی کلاس میں بھی رہنے کے لیے تیار ہیں تو سابق جج نے جواب دیا کہ ’جیل میں کوئی ڈی کلاس نہیں ہوتی۔ صرف اے، بی اور سی کیٹیگریز ہیں۔ جبکہ ایک قصوری بیرک بھی ہوتی ہے اگر جیل کے اندر رہتے ہوئے کوئی جرم کرتا ہے تو اسے ادھر منتقل کر دیا جاتا ہے اور وہ کافی سخت جیل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سی کلاس میں ہر عام قیدی کو رکھا جاتا ہے۔ بلکہ ابتدائی طور پر جب تک کوئی خاص شخصیت بھی اے کلاس کے لیے باضابطہ اپلائی نہیں کرتی اسے بھی سی کلاس میں ہی رہنا ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس لیے سابق وزیراعظم عمران خان کو ابھی اٹک جیل میں سی کلاس میں رکھا گیا ہے۔
شاہ خاور کے مطابق انہیں درخواست دینے پر اے کلاس میں منتقل کیا جائے گا لیکن اٹک جیل میں اے کلاس موجود ہی نہیں، اس کے لیے انہیں اڈیالہ جیل منتقل کرنا پڑے گا چونکہ اڈیالہ جیل جدید جیل ہے وہاں مختلف سہولیات کے ساتھ کمپاؤنڈ میسر ہیں۔