وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ سے جاری اعلامیے کے مطابق انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) سندھ رفعت مختار نے جمعے کو اپیکس کمیٹی اجلاس کو بتایا ہے کہ رواں برس جنوری سے ستمبر تک صوبے سے 220 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا جن میں 208 کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر کی زیر صدارت اپیکس کمیٹی کے 28واں اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے آئی جی سندھ رفعت مختار نے کہا، ’گذشتہ سال صوبے میں اغوا برائے تاوان کے 81 کیسز ہوئے۔ رواں سال لاڑکانہ سے 128، سکھر سے 46، کراچی سے 42، حیدرآباد سے اور شہید بےنظیرآباد سے ایک فرد کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا۔‘
اعلامیے میں کہا گیا کہ آئی جی سندھ نے اجلاس کو بتایا کہ ’کراچی کے تاوان کے لیے اغوا ہونے والے تمام 42 مغویوں کو بازیاب کر لیا گیا ہے۔ حیدرآباد سے اغوا ہونے والے تینوں مغوی بازیاب ہو چکے ہیں۔ سکھر سے 46 مغویوں میں سے 41 بازیاب ہوئے ہیں جبکہ لاڑکانہ سے 128 میں سے 121 بازیاب ہوئے ہیں اور اس طرح صوبے بھر کے 220 مغویوں میں سے اب تک 208 بازیاب ہو چکے ہیں۔‘
اعلامیے کے مطابق اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں صوبائی وزرا بریگیڈیئر (ر) حارث نواز، عمر سومرو، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار، چیف سیکریٹری ڈاکٹر فخر عالم، ڈی جی رینجرز میجر جنرل اظہر وقاص، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن اور حساس اداروں کے صوبائی سربراہان اور دیگر نے بھی اجلاس شرکت کی۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ تقریباً 60 ڈاکو ہیں، باقی قبائلی لوگ ہیں۔ 60 ڈاکوؤں کی فہرست بنائی گئی ہے، جن کو آپریشن میں ٹارگٹ کیا جائے گا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے تمام ڈاکوؤں کے خاتمے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکوؤں کی وجہ سے دریا سندھ پر گھوٹکی اور کشمور کے درمیاں پل کی تعمیر کا کام بند ہے، پل پر جلد کام کا آغاز کیا جائے۔‘
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ’کور کمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار نے رینجرز اور پولیس کو پل کی سائٹ پر فوراً جانے کی ہدایت اور کہا کہ پل بن گیا تو ڈاکوؤں کے چھپنے کے مقامات کھل جائیں گے۔‘
اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ ’اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے کور کمانڈر کراچی لیفٹننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دریا سندھ کے بچاؤ بند پر 400 پولیس چوکیاں بنائی جا رہی ہیں، جن میں سے اب تک 210 چوکیاں بن چکی ہیں جن پر 3200 پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔‘
اعلامیے کے مطابق ’اپیکس کمیٹی اجلاس میں ایکشن پلان سے متعلق بھی بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ پولیس کے ساتھ رینجرز کو بھی آپریشن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسلحے کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا جا رہا ہے۔ ملٹری گریڈ کے اسلحے کی بڑی کھیپ گھوٹکی سے پکڑی گئی ہے۔ ‘
وزیراعلیٰ ہاؤس کے اعلامیے میں بتایا گیا کہ ’کور کمانڈر نے مزید کہا کہ انٹیلی جنس نے کام تیز کردیا ہے کہ کون ان ڈاکوؤں کو سپورٹ کر رہا ہے۔ ڈاکوؤں کے خلاف سٹریٹجک آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے لیے جدید اسلحے کے لیے پاکستان فوج مدد کرے گی۔ پاکستان آرمی کے ساتھ رینجرز اور پولیس ڈاکوؤں کے خلاف مشترکہ آپریشن کرے گی۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’اجلاس کے دوران نگران وزیراعلیٰ سندھ نے کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے آغاز کی منظوری دے دی۔‘
اس سے قبل نگران 14 ستمبر کو وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری کیے جانے والے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ سندھ کابینہ نے 14 ستمبر کو ہونے والے اجلاس میں شمالی سندھ کے ڈاکوؤں کا صفایا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کرنے اور اسلحہ سمگل کرنے والے منظم گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کرنے کی منظوری دی۔
اعلامیے کے مطابق ’اجلاس کے دوران انٹیلی جنس کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ کچے کے علاقے میں مجرموں کے استعمال میں سائبر اور ڈیجیٹل سروس منقطع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔‘
جس کے بعد پولیس اور رینجرز کے دستے بڑی تعداد میں شمالی کے مختلف اضلاع میں پہنچ چکے ہیں۔
آپریشن میں تاخیر سے متعلق دو روز قبل سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) سکھر عرفان سموں سے پوچھا گیا تو عرفان سموں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دریائے سندھ میں تاحال سیلابی صورت حال ہے اور کچے کا بڑا علاقہ زیر آب ہے۔ اس لیے کچے میں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ پولیس کچے میں جانے کے لیے پگڈنڈیاں بنا رہی ہے۔ مگر اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔‘
ایپکس کمیٹیوں کا قیام
16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد ملک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت نے جنوری 2015 میں ایک جامع 20 نکاتی قومی ایکشن پلان ترتیب دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شدت پسندی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام، شدت پسند تنظمیوں کو کالعدم کرنے، مدارس کے اندراج، موبائل فونز کی سموں کو رجسٹریشن اور دیگر اقتدامات کے ساتھ چاروں صوبوں میں اپیکس کمیٹیاں قائم کی گئی تھیں۔
ان اپیکس کمیٹیوں کے اجلاس کے دوران حکومت اور فوجی قیادت نے ملک کو درپیش شدت پسندی کے واقعات سے نمٹنے کے اقدامات کیے۔
وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق سندھ میں اپیکس کمیٹی کے گذشتہ آٹھ سالوں کے دوران 28 اجلاس ہو چکے ہیں۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس کے دوران ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم رند نے کراچی میں جرائم کی مجموعی صورت حال بالخصوص سٹریٹ کرائم پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’2013 میں شہر میں قتل کی تین ہزار چا سو 67 وارداتیں ہوئیں اور 2023 میں یہ تعداد 411 تک کنٹرول کی گئی۔ جبکہ قتل کے مقدمات میں مطلوب 329 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔‘
وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری ہینڈآؤٹ کے مطابق انہوں نے مزید کہا کہ ’2013 میں سٹریٹ کرائم کے 39 ہزار 884 کیسز رپورٹ ہوئے جو 2022 میں بڑھ کر 85 ہزار پانچ سو دو ہو گئے جب کہ رواں سال 2023 میں (17 ستمبر تک) 61 ہزار 98 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’ایپکس کمیٹی نے تفصیلی بحث کے بعد سٹریٹ کرمنلز اور ڈرگ مافیا کے خلاف پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیٹی نے کچی آبادیوں میں بار بار کومبنگ آپریشنز اور سنیپ چیکنگ کا دورانیہ رش کے اوقات میں بھی شروع کرنے کی منظوری دی۔
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ’ضمانت پر رہا ہونے والے اور بار بار جرم کرنے والے مجرموں، منشیات فروشوں اور فرار ہونے والوں کے خلاف نگرانی اور کارروائی شروع کی جائے گی۔ اجلاس میں سی سی ٹی وی کیمرہ نیٹ ورکس اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کے پھیلاؤ کے ذریعے نگرانی میں اضافہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔‘