سپریم کورٹ آف پاکستان میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت پیر کو بھی مکمل نہ ہو سکی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ باقی وکلا کو منگل کی صبح ساڑھے گیارہ بجے سنا جائے گا۔
پیر کو سماعت تقریباً آٹھ گھنٹے تک جاری رہی اور اس دوران دو بار وقفہ کیا گیا۔ چار وکلا نے دلائل مکمل کیے جبکہ باقی وکیل اپنے جواب الجواب دلائل اگلے روز عدالت کے سامنے پیش کریں گے۔
اس سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیر کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ’آج سماعت کا آخری دن ہے‘۔
سماعت کا آغاز پیر کی صبح کورٹ روم نمبر ایک میں ہوا جس میں وکلا اور صحافی بڑی تعداد میں موجود تھے۔
جب سماعت شروع ہوئی تو صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل دینے شروع کیے ہیں جو جاری ہیں۔
عابد زبیری درخواست گزار راجہ عامر کی جانب سے اس مقدمے میں دلائل دے رہے ہیں۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا پس منظر
28 مارچ، 2023 کو وفاقی کابینہ کے ایک خصوصی اجلاس میں عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کو ریگولیٹ کرنے کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروانے کے بعد صدر عارف علوی کو بھیجا گیا تھا لیکن صدر نے بل پر دستخط کیے بغیر واپس بھجوا دیا۔
صدر پاکستان نے آٹھ اپریل کو بل واپس بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔‘
بعد ازاں 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل منظور کرنے کے بعد دوبارہ صدر کو دستخط کے لیے بھجوا دیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے 21 اپریل کو جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ تشکیل دینے کا اختیار کم کرنے کا بل باقاعدہ قانون بن گیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے 13 اپریل کو ہی اس ایکٹ کو معطل کر دیا تھا۔
اپریل میں ہی اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں موقف اپنایا گیا تھا ’پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں، آئین کے آرٹیکل 191 اور 142، 70 اور انٹری 55 فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بنے ہوئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
درخواستوں کے مطابق قومی اسمبلی، سینیٹ اور باقی سب کے اپنے رولز ہیں جو انہوں نے خود بنائے، آئین کے آرٹیکل 184/ 3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی نہیں دیا جا سکتا۔‘
درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ ’بینچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں اور از خود نوٹس کے معاملے کے حوالے سے معیارات طے کر چکی ہے، یہ قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔
’بل بدنیتی پر مبنی ہے، یہ بل آئین کے ساتھ دھوکہ ہے، لہٰذا عدالت بل کو کالعدم قرار دے کر صدر مملکت کو بل پر دستخط سے روکے اور عدالتی کارروائی تک بل کو معطل رکھا جائے۔‘
یہ درخواستیں سینیئر صحافی سمیع ابراہیم اور چوہدری غلام حسین کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔
درخواست میں وفاقی حکومت، صدر مملکت اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ اس معاملے پر سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے جبکہ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔
بل کا مسودہ
بل کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی، اپیل دائر ہونے کے چودہ روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنا ہو گی۔
10 اپریل، کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا تھا۔
12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔
تاہم 21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا تھا۔