بین الاقوامی صحافتی تنظیم آر ایس ایف نے پاکستان کو غزہ کے بعد دنیا میں صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ قرار دیا ہے۔
سال کے آخر میں عالمی ادارے صحافتی رینکنگ اور سالانہ رپورٹیں جاری کرتے ہیں، جس کا مقصد صحافیوں کو درپیش خطرات سے دنیا بھر کو آگاہی دینا ہوتا ہے۔
اس حوالے سے صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بورڈر (آر ایس ایف) نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے اور سی پی جے بھی مسلسل صحافیوں کو درپیش خطرات سے آگاہ کر رہا ہے۔
آر ایس ایف کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو غزہ کے بعد صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ غزہ میں تو جنگ کی صورت حال ہے لیکن کیا پاکستان میں بھی جنگ ہو رہی ہے؟
پاکستان میں رجیم چینج کے بعد سے سیاسی بدامنی ہے اور صحافیوں کو ظلم ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس میں قتل، اغوا، ہراسانی، مقدمات، دھمکیاں، ایف آئی اے میں طلبی، آف ایئر کرنا، جبری برطرفیاں اور ٹرولنگ شامل ہے۔
اوپر سے کوئی شنوائی بھی نہیں ہے۔ حکومت اور نہ ہی عدالتیں صحافیوں کو انصاف دینے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ میرے مرحوم شوہر ارشد شریف کا کیس سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے، اس لیے میں نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ ساتھ میں ان صحافیوں کو بھی شامل کر لیا جائے، جنہیں 2024 میں بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بہت سے صحافیوں کے اہل خانہ وسائل نہ ہونے یا خوف کی وجہ سے چپ سادھ لیتے ہیں، کچھ دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کی رسائی اسلام آباد تک نہیں ہو پاتی، اس لیے میں نے سوچا کہ ان کے نام بھی اپنی پٹیشن میں شامل کر لوں تاکہ ان مقتول صحافیوں کے انصاف کے لیے بھی کچھ ہو سکے۔
ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے میں نے یہ درخواست اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں فائل کر دی۔ معلومات اکٹھا کرتے وقت میں ششدر رہ گئی کیونکہ پاکستان میں کوئی جنگ نہیں ہو رہی لیکن 11 صحافیوں کو صرف اس ایک سال 2024 میں قتل کر دیا گیا۔
رجیم چینج کے بعد سے صحافیوں پر مقدمات میں تیزی آئی۔ جن صحافیوں پر مقدمات درج ہوئے ان میں صابر شاکر، سمیع ابراہیم، عمران ریاض، ارشد شریف، جمیل فاروقی، خاور گھمن، معید پیرزادہ اور دیگر شامل تھے۔ ان پر لگنے والی دفعات میں پاکستان پینل کوڈ پی پی سی کی دفعات 34، 131، 499، 153، 452 اور 505 تھیں، یعنی مسلح افواج کے خلاف بغاوت پر اکسانا، عوامی اشتعال کو ہوا دینا، طلبہ کو اکسانا، بغاوت وغیرہ کے سنگین الزامات شامل تھے۔ صحافیوں پر ہونے والی ایف آئی آرز کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔
اس کی وجہ سے بہت سے صحافی ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ان میں ارشد شریف، وجاہت سعید، معید پیرزادہ، احمد نورانی اور شاہد اسلم قابل ذکر ہیں۔ ارشد شریف کو کینیا میں قتل کر دیا گیا اور اس کے بعد عمران ریاض کے اغوا اور تین ماہ سے زائد محبوس رہنے کے بعد واپسی نے میڈیا کے حلقوں میں بہت خوف پھیلایا، تاہم صحافی تنظیموں نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور یہ آواز نہیں اٹھائی کہ عمران ریاض کو کیوں اغوا کیا گیا اور ان کو کیوں محبوس رکھا گیا۔
عالمی رینکنگ میں تنزلی کے بعد آزادی صحافت کے انڈیکس میں پاکستان اب 152ویں نمبر پر ہے۔
ملک کا دارالحکومت ہی صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ صحافی اسد طور، احمد نورانی، مطیع اللہ جان، طحہ صدیقی دیگر پر یہاں حملے ہوئے۔ صحافیوں پر آن لائن حملے اور کیسز ان کے علاوہ ہیں۔ ٹرولز مرد صحافیوں کو لفافہ اور خواتین صحافیوں کو بدکردار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے صحافیوں نے اپنا سوشل میڈیا کا استعمال کم کر دیا ہے اور اپنے کمنٹس سیکشن بند کر دیے ہیں۔
دھمکیاں، ہراسانی، مقدمات، گرفتاریاں سینسر شپ نوکریوں سے برطرفی اور تنخواہوں میں تاخیر اس کے علاوہ ہیں۔ عالمی رینکنگ میں تنزلی کے بعد آزادی صحافت کے انڈیکس میں پاکستان اب 152ویں نمبر پر ہے۔
2024 میں مارچ میں رحیم یار خان میں صحافی جام صغیر احمد کو قتل کیا گیا۔ اپریل میں پاک پتن سے تعلق رکھنے والی صحافی نوشین رانا کی مسخ شدہ لاش ملی۔ یوم صحافت تین مئی کو صحافی محمد صدیق مینگل کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔ وہ خصدار پریس کلب کے صدر تھے۔
مئی ہی کے مہینے میں صحافی اشفاق سیال کو مظفر گڑھ میں قتل کر دیا گیا۔ مئی کے مہینے میں ہی شمالی وزیرستان میں صحافی کامران داوڑ کو نشانہ بنایا گیا اور صحافی نصراللہ گڈانی کو گھوٹکی میں نشانہ بنایا گیا۔ بعدازاں نصراللہ گڈانی کراچی میں دوران علاج دم توڑ گئے۔
جون کے مہینے میں صحافی ظفر اقبال کو لودھراں اور صحافی خلیل جبران کو لنڈی کوتل میں قتل کیا گیا۔ جولائی میں نوشہرہ میں صحافی حسن زیب کو قتل کر دیا گیا۔ اگست میں گھوٹکی کے مقام پر صحافی بچل گھنیو کو اور ستمبر میں نثارلہڑی کو مستونگ میں نشانہ بنایا گیا۔ 12 دسمبر کو رحیم یار خان میں صحافی ظفر اقبال نائچ کو قتل کر دیا گیا۔
صحافیوں کے تحفظ کی تنظیم سی پی جے کے مطابق پاکستان میں قتل ہونے والے تین صحافیوں کو براہ راست ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ باقی کے قتل کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔
اس کے علاوہ مقدمات کا سامنا کرنے والوں، ایف آئی اے طلبی، جیل جانے والے صحافیوں کی فہرست بھی طویل ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں صحافی شیر افگن بزدار اور صحافی غلام مصطفیٰ کو ایک ماہ جیل کاٹنا پڑی۔
صحافی احسان اللہ نسیم کو پی ٹی ایم کے جرگے کی کوریج کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا۔ صحافی زاہدہ راؤ نے اسلام آباد میں کوریج کے دوران پولیس کی طرف سے بدسلوکی سہی۔ یوٹیوبرز خاص طور پر اشرافیہ کے نشانے پر ہیں۔
اس کے علاوہ جلسوں دھرنوں مظاہروں میں بھی صحافی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔
اب ایک نئی تلوار صحافیوں پر لٹک رہی ہے۔ نومبر میں پی ٹی آئی کی فائنل کال کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے صحافی مطیع اللہ کو گرفتار کیا گیا، پھر لاہور سے صحافی شاکر اعوان لاپتہ ہو گئے۔ اس کے بعد صحافی ہرمیت سنگھ پر مقدمات قائم کر دیے گئے۔
اس وقت پاکستان میں آزادی صحافت سخت دباؤ کا شکار ہے۔ بہت سی آوازیں خاموش ہیں، بہت سے صحافی خودساختہ جلاوطنی گزار رہے ہیں اور کچھ آف ایئر ہیں تو کچھ نے روپوشی میں عافیت سمجھی ہے۔
غیر جمہوری قوتیں جمہوریت پر غالب آ چکی ہیں اور کتنے ہی صحافی مین سٹریم میڈیا کو سینسرشپ کی وجہ سے خیرباد کہہ گئے اور وہ اب یوٹیوب، ایکس اور فیس بک پر کام کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت اب سوشل میڈیا پر بھی مختلف قسم کی پابندیاں لگا رہی ہے۔ صحافیوں کی شنوائی نہیں، حالات ان کے لیے سازگار نہیں لیکن مشکلات کے باوجود وہ خبروں کا سلسلہ رکنے نہیں دے رہے۔
یونیسکو کے مطابق دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل کے 85 فیصد مقدمات حل طلب ہیں اور ان میں قاتلوں کو سزا نہیں ہوئی۔ پاکستان کی طرف دیکھیں تو حکومت ایک سال سے صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے کینیا کے ساتھ ہونے والے ایم ایل اے کو لٹکائے جا رہی ہے اور ہر بار عدالت سے وقت لینے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے۔
جو صحافی قتل ہو گئے ان کے لیے انصاف دور کی بات ہے، جو زندہ ہیں ان کی زندگی بھی اجیرن بنائی جا رہی ہے۔ حکومت صحافیوں کی مشکلات سے پردہ پوشی کر رہی ہے اور عدالتیں، صحافتی یونیز بھی خاموش ہیں۔ ایسے حالات کب تک رہیں گے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔