انڈیا کی شمال مشرق ریاست آسام میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف پولیس کے تازہ ترین کریک ڈاؤن میں مزید 416 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، جس کے بعد گرفتاریوں کی تعداد تقریباً پانچ ہزار ہو گئی۔
آسام ریاست کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما نے ایک بیان میں کہا: ’ہم اس سماجی برائی کو ختم کرنے کے لیے جرات مندانہ اقدامات جاری رکھیں گے۔
’آسام کم عمری کی شادی کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں راتوں رات چھاپے مارے گئے اور گرفتار افراد کو آج (اتوار کو) عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق انڈیا میں کمسن شادی شدہ بچیوں کی تعداد 22 کروڑ سے زیادہ ہے، لیکن حالیہ برسوں میں بچوں کی شادیوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر کمی آئی ہے۔
آسام ریاست نے پہلے ہی فروری 2023 میں شروع ہونے والی مہم میں ہزاروں افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں شادی شدہ جوڑوں کے والدین اور رجسٹرار بھی شامل تھے، جنہوں نے نابالغ بچوں کی شادی کو انجام دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعلیٰ ریاست میں 2026 تک بچوں کی شادیوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں، جس کے تحت ایسی شادیوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جاری ہے۔
ریاست بھر میں غیر قانونی شادیوں کے حوالے سے گرفتاریوں کی تعداد 4,800 سے زیادہ ہو گئی۔
انڈیا میں شادی کی قانونی عمر 18 سال ہے لیکن لاکھوں بچوں کو کم عمری میں شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے خاص طور پر غریب دیہی علاقوں میں۔
یہاں بہت سے والدین اپنے مالی تحفظ کو بہتر بنانے کی امید میں اپنے بچوں کی شادیاں کر دیتے ہیں لیکن اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں، لڑکیاں شادی کے بعد گھریلو کام کاج کی خاطر سکول چھوڑ دیتی ہیں اور چھوٹی عمر میں بچے جنم دینے سے صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔
2017 کے ایک تاریخی فیصلے میں انڈین سپریم کورٹ نے نابالغ بیوی کے ساتھ جنسی تعلقات کو ’ریپ‘ قرار دیا تھا۔