جھیل والے ڈاکٹر صاحب یاد ہیں؟ وہی جنہوں نے امریکہ میں جھیل کنارے اپنے مکان کے باہر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ وہ اور ان کی ڈاکٹر بیگم ہمیشہ کے لیے امریکہ چھوڑ کر پاکستان واپس آرہے ہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ سارے ڈالرز پاکستان لا رہے ہیں۔ نجانے وہ ڈالرز اور ڈاکٹرز پہنچے کہ نہیں؟ لیکن وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر ایوارڈ یافتہ پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین اسلم خان پاکستان آ گئے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل کی لابی میں اسلم خان کی کمپنی کی نمائندہ جل فلیپک سے خاصی دیر محوگفتگو رہی۔ ہمیں گرین سگنل ملا کہ ہوٹل کے آخری فلور پر اسلم خان ایک میٹنگ میں ہیں، وہیں چلا جائے۔ جل مجھے اسی میٹنگ میں لے چلیں۔ کیا میٹنگ تھی وہ بھی۔ شاندارسوٹ بوٹ میں ملبوس اسلم خان چند سادہ ملبوس دیہاتیوں میں گھرے بیٹھے تھے۔
’یہ سب میرے سگے بھائی اور ان کے بیٹے ہیں۔ میں 35 سال بعد وطن واپس آیا ہوں مگر میرا گاوں اور گاوں والے آج بھی پسماندہ ہیں۔‘ میں نے حیرت سے دیکھا تو اسلم خان نے بتایا کہ ایبٹ آباد کے قریب فتح آباد نامی ایک نہایت پسماندہ گاوں سے نکل کر زندگی بنانے وہ راولپنڈی آگئے، کچھ پڑھائی کی یہاں تک کہ 80 کی دہائی میں ہاتھ میں 20 ڈالرز لیے امریکہ چلے گئے۔
چرچز چکن نامی ریسٹورانٹ میں برتن دھونے سے کام کا آغاز کیا اور اپنی محنت سے دس سال میں اس کمپنی کے مالک بن گئے جس کے تحت اب چرچز چکن کے قریب ڈیڑھ سو ریسٹورانٹ پورے امریکہ میں ہیں۔ اس وقت اسلم خان کی کمپنی فالکن ہولڈنگز امریکہ بھر میں مختلف برانڈز کی سینکڑوں ریسٹورانٹ چلا رہی ہے جن میں فش اینڈ چپس کا مشہور ’لانگ جان سلورز‘، برگرز کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ برانڈ ’ہارڈیز‘، امریکن فاسٹ فوڈ چین ’اے اینڈ ڈبلیو‘ اور ’پکاڈلی‘ ریسٹورانٹ کی فرینچائز شامل ہیں۔ ان کی کمپنی اکاونٹنگ اور ہیومن ریسورس سروسز بھی دیتی ہے۔ 13000 سے زائد ملازمین ان کے یہاں کام کرتے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور سنگل مدرز کی ہے۔ بلین ڈالرز کے اثاثوں کو چھوتی اسلم خان کی یہ کمپنی اللہ جانے اور کیا کیا جھنڈے گاڑ رہی ہے۔ اسلم خان امریکی فوڈ بزنس میں اپنا سکہ جما چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کسی دوسرے ملک کا رخ کرتے ابھی پچھلے ماہ ان کی پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے واشنگٹن میں ملاقات ہوگئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایک بار پاکستانیوں کو کامیابی کا ذائقہ چکھنے دیں، پھر انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔‘ اسلم خان کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کے اندر پاکستانیت کا سوئچ ’آن‘ کر دیا ہے۔ مجھے ان کی بات سن کر بیرون ملک پاکستانیوں اور ڈالرز سے بھرے بیگ وغیرہ کے من گھڑت لطیفے یاد آگئے مگر اسلم خان اپنا کاروبار پاکستان لانے کے اس فیصلے پر خاصے سنجیدہ نظر آئے۔ انہیں عمران خان کے مخلص اور محنتی ہونے پر بڑا اعتماد ہے۔
اسلم خان نےمٹی کی محبت سے سرشار، جذبات میں مغلوب ہو کر اپنے ارادوں کی فہرست گنوا دی۔ ’پاکستان میں بزنس لا رہا ہوں، کافی حد تک کام شروع کر دیا ہے، اس سے نوکریاں نکلیں گی، ہیلتھ کئیر سینٹرز بن رہے ہیں، اپنے گاوں کی سڑکیں بنوانے سے کام کا آغاز کر دیا ہے۔ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز اور بہت کچھ۔‘ اسلم خان پاکستان کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے ان کے اس جذبے پر رشک آ رہا تھا مگر ان کے ساتھ جو ہمارا نظام اب کرے گا وہ سوچ کر ترس بھی آنے لگا۔
مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے پوچھ ہی لیا کہ کیا پاکستانی سسٹم میں رگڑا کھانے کے لیے تیار ہیں؟ اسلم خان کی سیکریٹری جِل نے جھٹ سے کہا کہ پاکستان بزنس لانے کے لیے وزیر اعظم کے مشیر تجارت رزاق داود سے کئی بار رابطہ کیا کوئی جواب نہیں ملا۔
اسلم خان کو جیسے کچھ یاد آگیا کہنے لگے ’مسائل کی کیا بات کروں! عمران خان نے کہا تھا پاکستان میں بزنس لانے والوں کے لیے ون ونڈو آپریشن ہوگا۔ وہ ون ونڈو کہاں ہے۔‘ پھر بولے ’یو کین ناٹ فیک ایٹ ٹو میک اٹ‘ یعنی صرف فوں فاں سے کام چلنے والا نہیں صاحب!
’میں پاکستان کو اپنی خدمات دینا چاہتا ہوں، مدد کرنا چاہتا ہوں مگر مجھ ایسے سرمایہ کاروں کو گائیڈ کرنے کے لیے یہاں کوئی بھی نہیں۔ ہم امریکہ میں اپنا کاروبار چھوڑ کر یہاں آتے ہیں مگر یہاں کسی کو وقت کی قدر نہیں۔‘ اسلم خان کے اس ایک جملے سے ہی عیاں ہوگیا کہ وزیر اعظم جو یہاں وہاں دورے کرتے پھر رہے ہیں، وہ جن سرمایہ کاروں کو اپنے خلوص سے رجھا کر پاکستان لا رہے ہیں، ان کی ٹیم کے پاس ایسے سرمایہ کاروں کے لیے کوئی واضح پروگرام نہیں جو اوورسیز پاکستانی سرمایہ کاروں سے ون ونڈو سہولت کاری کا وعدہ کیا تھا فی الحال وہ ’ کھڑکی‘ بند ہے۔
اسلم خان نے یہ کہتے ہوئے موضوع ہی ختم کر دیا کہ ملاقاتیں تو بہت ہو رہی ہیں، مگر نتائج کچھ بھی نہیں نکلتے۔ (تصویر مصنفہ)میں نے اسلم خان سے پوچھا کہ حکومت کی جانب سے کوئی تو ملنے آیا ہوگا، آخر کو آپ نے عمران خان کی آواز پر لبیک کہا ہے۔ اسلم خان نے یہ کہتے ہوئے موضوع ہی ختم کر دیا کہ ملاقاتیں تو بہت ہو رہی ہیں، مگر نتائج کچھ بھی نہیں نکلتے، کوئی پلاننگ نظر نہیں آئی۔‘ کئی پاکستانی نژاد بزنس مین پاکستان میں مواقع دیکھ رہے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔
’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘ یعنی کاروبار جمانے میں آسانی کے عالمی انڈیکس میں 190 ممالک میں پاکستان کا نمبر 136 ہے۔ پچھلی حکومت میں ہماری رینکنگ اور بھی پیچھے تھی، رینکنگ تو بہتر ہوئی ہے مگر ہم اپنے خطے میں اس حوالے سے اب بھی خاصے پیچھے ہیں۔ کوئی کیوں اپنا وقت لگائے اور سرمایہ پاکستان لائے وزیر اعظم نے یہ تو سمجھا دیا، مگر بزنس سیٹ کرنے کے راستے میں کھڑی رکاوٹوں کے ماونٹ ایورسٹ کوئی کیسے سر کرے یہ بھی بتانا ہوگا۔
عمران خان بحیثیت وزیر اعظم تو سر توڑ کوششوں میں لگے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری آئے لیکن ان کی ٹیم بھی کیا اس مشن میں ان کے ساتھ ہے اور تیار ہے؟ سرمایہ کاروں کے لیے کیا مارکیٹ ریسرچ کی جا رہی ہیں؟ کن سیکٹرز میں سرمایہ کاری کے لیے حالات مناسب کر دیئے گئے ہیں؟ ایسے گاڑھے سوال ہم کیا جانیں ہاں مگر ان تمام سوالوں کے جواب تو حکومتی ایوانوں کی غلام گردشوں میں یہاں وہاں بھٹک کر راستے ڈھونڈنے والے سرمایہ کار ہی دے سکتے ہیں۔
حوصلہ کریں اور اس ترانے کو یاد رکھیں کہ ’ٹھیک کرے گا سب کپتان۔‘ دراصل ہمارا صابن ایسے ہی تھوڑا سلو ہے، کیا پتہ تبدیلی دھیرے دھیرے بن بتائے دبے قدموں آ رہی ہو۔ ڈھیروں امیدوں میں اس ایک امید کا بھی اضافہ کر لیں کہ وزرات اوورسیز پاکستانی، وزرات تجارت اور بورڈ آف انوسٹمنٹ کے گیان دھیان والے لوگ ایسے دگرگوں معاشی حالات میں جانتے بوجھتے پاکستان کا رخ کرنے والے سرمایہ کاروں کا سواگت گھر آئی لکشمی کی طرح کریں گے۔
جاتے جاتے اپنے قارئین کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلم خان نے ہمت نہیں ہاری، فی الحال وہ مادر وطن کی خدمت کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار اور ملک میں بزنس لانے کے لیے پرعزم ہیں۔ ہماری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں باقی آگے ’نصیب اپنا اپنا۔‘