خواتین کے ذاتی تشخص کو تباہ کرنے والی اے آئی ’انفلوئنسرز‘

کیا سوشل میڈیا پر خوبصورتی کے معیار پہلے ہی کافی غیر حقیقی نہیں ہیں؟ ڈر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خواتین کی بھلائی کے لیے نہیں۔

اے آئی انفلوئنسرز کا عروج بھی اسی طرح تشویش ناک ہے جس طرح کوئی بھی صنعت انسانوں کو ڈیجیٹل ورکرز(کم از کم ظاہری طور پر) کے ساتھ تبدیل کر سکتی ہے  (ایٹانا ایکس اکاونٹ)

اس کی جلد کے مسام نہیں، بادامی آنکھیں اور چہرے کی بناوٹ میں کوئی خامی نہیں ہے۔ اس کے بال سیدھے، بغیر گرہوں کے اورگلابی کینڈی فلاس جیسے ہیں۔ میک اپ میں کوئی خرابی نہیں، پیٹ اندر کو اور سڈول ہے، جبکہ باقی جسم ہموار اور اضافی چربی سے پاک ہے۔ لیکن؟ یہ عورت اصلی نہیں ہے۔

ایٹانا لوپیز مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں۔ انسٹا گرام پر ان کے دو لاکھ 15 ہزار سے زائد فالوورز ہیں۔

وہ ’بارسلونا سے‘ طرز زندگی سے متعلق ملا جلا مواد پوسٹ کرتی ہیں جس میں برانڈ ڈیل کے طور پر وکٹوریہ سیکریٹ لونجرے میں اپنی تصاویر سے لے کر ہوائی اڈے یا گھر میں لی گئی تصاویر شامل ہیں۔

ہسپانوی کمپنی ’دا کلولیس‘ کی جانب سے تیار کردہ لوپیز کی اس ایجاد کا اصل مقصد کمائی کی صلاحیت کو زیادہ سے زیادہ کرنا اور حقیقی انفلوئنسرز کے ساتھ ہونے والے وقت کے ضیاع کو کم کرنا تھا۔

دی ٹیلی گراف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ایجنسی کے بانی روبن کروز کا کہنا تھا، ’ہم نے ایسا اس لیے کیا تاکہ ہم بہتر زندگی گزار سکیں اور دوسرے لوگوں پر انحصار نہ کریں جن میں انا ہے، یا جو صرف تصویر بنا کر بہت زیادہ پیسہ کمانا چاہتے ہیں۔‘

وہ کمپنی کو ہر ماہ 10 ہزار ڈالر سے زیادہ کما کر دے رہی ہیں۔

اے آئی انفلوئنسرز کا عروج بھی اسی طرح تشویش ناک ہے جس طرح کوئی بھی صنعت انسانوں کو ڈیجیٹل ورکرز(کم از کم ظاہری طور پر) کے ساتھ تبدیل کر سکتی ہے۔

لیکن میرے پریشان ہونے وجہ یہ نہیں ہے۔ بلکہ میں اس لیے فکرمند ہوں کہ اس انٹرویو کو پڑھنے کے بعد، میں نے لوپیز کی پروفائل دیکھی اور اپنے بارے میں برا محسوس کرنا شروع کر دیا۔

کاش میرے گالوں کی ہڈیاں بھی ایسی ہوتی۔ میرے بال اتنے چمکدار کیوں نہیں ہیں؟ اور اس کی بھنویں بالکل درست ہیں۔

جی ہاں، میں جانتی ہوں کہ ایٹانا اصلی نہیں ہے۔ لیکن اس کی تصاویر دیکھتے ہوئے آپ کو فوری طور پر پتہ بھی نہیں چلے گا۔

وہ منظر عام پر آنے والی پہلی اے آئی انفلوئنسر بھی نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر 2016 میں بنائی گئی لیل میکیلا کے انسٹاگرام پر 24 لاکھ فالوورز ہیں، جہاں وہ متعدد اشتہارات پوسٹ کرتی ہیں اور میوزک ریلیز کرتی ہیں۔

اس کے بعد ’شودو گرام‘ ہے، جس کو ’افریقہ کی شہزادی‘ باربی ڈول کی طرز پر بنایا گیا ہے۔

تاہم حال ہی میں مصنوعی ذہانت سے گلوکارہ اینا انڈیانا بنائی گئی، جس کا پہلا گانا ’بیٹریڈ بائے دس ٹاؤن‘ 24 نومبر کو نامعلوم تخلیق کاروں کی جانب سے ریلیز کیا گیا۔ جس کا آن لائن کافی مذاق اڑایا گیا تھا۔

لوپیز کی طرح، انڈیانا بھی ایک اصلی انسان سے بہت مماثلت رکھتی ہے، جس میں روایتی خوبصورتی کے تمام خواص ہیں: بھرے ہونٹ، صاف جلد، پتلا جسم۔

مجھے ڈر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خواتین کی بھلائی کے لیے نہیں۔ کئی برسوں تک سوشل کنڈیشننگ کو ختم کرنے کی کوشش کے بعد، ہم سب نے جو معیار طے کیا، وہ ایک خاص قسم کی خوبصورتی کو فروغ دیتا ہے اور ان لوگوں کو کم تر سمجھتا ہے جو پورے نہیں اترتے۔ اب ہم وہاں کھڑے ہیں کہ ہمیں سارے معیارات دوبارہ طے کرنے ہیں۔

یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ مصنوعی ذہانت والے انفلوئنسرز کتنے منافع بخش ہوسکتے ہیں، ان کے لیے مواقع بہت زیادہ ہیں۔

دوسرے لفظوں میں، ہم اپنی فیڈز پر اس طرح کی بہت سی خواتین کو دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔ وہ عورتیں جن کے چہرے اور جسم اتنے بے عیب ہیں کہ وہ حقیقی نہیں ہو سکتے۔ اور پھر بھی، وہ ایک ایسی تصویر برقرار رکھتے ہیں جس کے لیے ہم سب انہیں فالو کرتے ہیں یا ان کی تشہیر کردہ مصنوعات خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا سوشل میڈیا پر خوبصورتی کے معیار پہلے ہی کافی غیر حقیقی نہیں ہیں؟ ان تمام ایڈیٹنگ فلٹرز پر غور کریں جنہیں تاریخی طور پر پلاسٹک سرجری کو فروغ دینے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، مثال کے طور پر، اور لوگوں کے چہروں اور جسموں کو تبدیل کرنے کے لیے انسٹاگرام پر ہونے والی بے تحاشا چہرے کی ٹیوننگ۔ اب ہمیں مکمل طور پر تیار کردہ خوبصورتی کا بھی مقابلہ کرنا ہے؟

 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین