آج سے پانچ ہزار سال قبل جب مصر میں فرعون عظیم الشان اہرام بلند کر رہی تھی، اس وقت ہندوستان میں ایک تہذیب شاندار، ہوادار اور مستقیم گلیوں والے شہروں کی بنیادیں اٹھا رہی تھی جو تہذیبی طور پر مصر کے ہم پلہ تھی۔
وادیِ سندھ کی اس تہذیب موجودہ پاکستان میں ہڑپہ اور موئنجودڑو اور بھارت میں راکھی گڑھی کے علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی اور اس نے پانچ ہزار سال قبل سے لے کر کر ساڑھے تین ہزار قبل تک راج کیا۔
لیکن اس تہذیب والے بعد میں کہاں چلے گئے، یہ سوال ایسا ہے جس کا جواب آج تک تسلی بخش طور پر مل نہیں پایا۔
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے سائنس دانوں کی ایک ٹیم کے ارکان نے جریدے ’سیل‘ میں ایک اور تحقیق شائع کی ہے جس میں وادیِ سندھ کی تہذیب سے تعلق رکھنے والے ایک ڈھانچے سے حاصل کردہ ڈی این اے کا پہلی بار تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
یہ ڈی این اے ایک عورت کا ہے جو راکھی گڑھی میں 2800 سے 2300 قبل مسیح کے درمیان زندہ تھی۔
ویسے تو دنیا کے دوسرے خطوں سے قدیم ڈی این اے حاصل کیا گیا ہے، لیکن پنجاب کے گرم میدانوں میں ڈی این اے زیادہ عرصہ باقی رہ نہیں پاتا۔ تاہم سائنس دانوں کو اس عورت کے ڈھانچے کے کان کی ہڈی سے ڈی این اے حاصل ہو گیا جو محفوظ رہ گیا تھا۔
جب اس ڈی این اے کا ترکمانستان اور ایران سے حاصل کردہ 11 دوسرے نمونوں سے تقابل کیا گیا تو معلوم ہوا ہے کہ وادیِ سندھ کی تہذیب والے کہیں نہیں گئے، بلکہ برصغیر کے جدید باسی اسی تہذیب کے باشندوں کی نسل سے ہیں، البتہ ان میں بعد میں وسطی ایشیا کی چراگاہوں سے آنے والوں کے ڈی این اے کی آمیزش ہوئی ہے۔
ماہرین نے برصغیر کے 140 مختلف نسلی گروہوں کے ڈی این اے کی جانچ کی تو ان میں وسطی ایشیا کا خاصا حصہ پایا گیا۔ خاص طور پر برہمنوں میں اس کی مقدار زیادہ تھی۔ برہمن ہندوؤں کی اونچی ذات ہے جو مذہب کے رکھوالے ہیں اور روایتی طور پر سنسکرت زبان بولتے تھے۔
محقق ڈاکٹر رائیک نے بتایا: ’برہمنوں کے اندر وسطی ایشیائی ڈی این اے کی بڑی مقدار میں موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ہند یورپی زبانیں وسطی ایشیا سے آئی ہیں۔‘
ماہرینِ لسانیات کے مطابق شمالی ہندوستان کی زبانوں اور وسطی ایشیا کی چراگاہوں میں آج کل بولی جانے والی زبانوں میں خاصی مماثلت پائی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اسی علاقے کے باسی پانچ ہزار سال قبل مغرب میں یورپ کی طرف گئے، جب کہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے انہوں نے برصغیر کا رخ کرنا شروع کیا۔
یہی لوگ اپنی زبانیں بھی ساتھ لے آئے جنہوں نے رفتہ رفتہ وادیِ سندھ کی قدیم زبانوں کو ختم کر کے ان کی جگہ لے لی۔
جینیاتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اردو، ہندی، پنجابی، اور بنگالی جیسی ’آریائی‘ زبانیں بولنے والوں کے اندر وادیِ سندھ کے ڈی این اے کے علاوہ وسطی ایشیائی ڈی این اے کے آثار پائے جاتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بھارت کے جنوبی علاقوں میں مستعمل دراوڑی زبانیں (تامل، تیلگو، ملیالم، وغیرہ) بولنے والوں کے اندر وسطی ایشیائی ڈی این اے کے بہت کم اجزا موجود ہیں۔
ہند یورپی زبانیں
بہت سے لوگوں کو جب پہلی بار پتہ چلتا ہے کہ اردو اور انگریزی زبانیں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں تو انہیں بڑی حیرت ہوتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ بظاہر یہ بالکل مختلف زبانیں ایک ہی لسانی خاندان یعنی ہند یورپین کا حصہ ہیں، اور اس خاندان میں فارسی، سنسکرت، پنجابی، پشتو، سندھی، بنگالی، جرمن، فرانسیسی، لاطینی، یونانی، روسی اور چار سو کے قریب دیگر زبانیں شامل ہیں۔ دنیا میں کل ملا کر ڈھائی ارب سے زیادہ لوگ اس خاندان کی زبانیں بولتے ہیں۔
ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ شروع میں ایک ہی زبان تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں، بولیوں اور لہجوں میں ڈھلتی چلی گئیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے درخت کا تنا ایک ہی ہوتا ہے، لیکن اوپر چل کر مختلف شکل و صورت اور جسامت کی شاخوں میں ڈھلتا جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آئرلینڈ سے لے کر بنگلہ دیش تک اور کیلی فورنیا سے لے کر سائبیریا تک یہ زبانیں کیسے پھیل گئیں؟
اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے قدیم ڈھانچوں سے ڈی این اے حاصل کر کے ان کا آپس میں تقابل کیا گیا ہے، جس سے چند حیرت انگیز نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
اپنی نوعیت کی اس سب سے بڑی تحقیق کی رپورٹ ممتاز سائنسی جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہوئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانچ ہزار سال قبل کانسی کے زمانے میں وسطی ایشیا (اس علاقے کو steppe کہا جاتا ہے) سے خانہ بدوش قبائلی دنیا کے دوسرے خطوں کی طرف بڑھنا شروع ہوئے، اور مغرب میں یورپ، اور مشرق میں جنوبی ایشیا تک پہنچ گئے۔
یہ لوگ جہاں جہاں گئے، ساتھ اپنی زبان بھی لیتے گئے، جو آج ہمارے سامنے ہند یورپین زبانوں کی شکل میں موجود ہیں۔
ایک تحقیق کار وگھیش ناریسمہن نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ یورپ میں تو اس موضوع پر بہت تحقیق ہوئی ہے، لیکن جنوبی ایشیا کے لوگوں کی ہجرت پر کچھ زیادہ کام نہیں ہوا۔
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سائنس دانوں کی ٹیم نے وسطی اور جنوبی ایشیا سے 524 ڈھانچے حاصل کیے اور ان کا ڈی این اے حاصل کر اس کا جائزہ لیا۔
اس کے بعد انہوں نے اس ڈی این اے کا دنیا کے دوسری علاقوں سے ملنے والے قدیم ڈی این اے سے تقابل کیا اور اس سے نتائج اخذ کیے۔
اس سے پہلے ایک نظریہ یہ تھا کہ جب اناطولیہ (موجودہ ترکی) کے علاقے سے کسان دوسرے علاقوں کو ہجرت کرتے گئے اور زراعت کے ساتھ ساتھ اپنی زبان بھی لے گئے۔
لیکن اس تازہ ترین تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اناطولیہ کے کسان کم از کم برصغیر تک نہیں آئے کیوں کہ یہاں پائے جانے والے ڈی این اے میں ان کے آثار نہیں ملتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں زراعت کسی اور وسیلے سے آئی ہے، اسے اناطولیہ کے باشندے لے کر نہیں آئے۔