خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور میں خواتین کی تفریح کے لیے ایک کلب کے قیام کا اعلان کیا ہے جہاں خواتین کو ورزش گاہ، باورچی خانہ، کیفیٹیریا، تھیئٹر اور ڈے کیئر سینٹر جیسی سہولتیں دستیاب ہوں گی۔ کامیابی کی صورت میں اس تجربے کو شہر کے مختلف علاقوں میں دوہرایا جائے گا۔
امور نوجوانان کے ڈائریکٹر اسفندیار خٹک کا کہنا ہے کہ کلب کے لیے حیات آباد فیزسیون میں چار کنال کے رقبے پر محیط ایک سرکاری عمارت کا انتخاب کیا جا چکا ہے۔
انڈیپنڈنٹ اردو سے بات چیت کے دوران اسفندیار خٹک کا کہنا تھا کہ ”ہم نے مختلف شعبوں کی خواتین سے رائے لینے کے بعد یہ تجویز تیار کی جس کے تحت لیڈیز کلب میں جدید سامان پر مشتمل ورزش گاہ، باورچی خانہ، کیفیٹیریا، تھیئٹر اور ڈے کیئر سینٹر قائم کیا جائے گا۔ اس کلب میں خواتین اور بچوں دونوں کی تفریح اور کھیل کود کا سامان بھی میسر ہوگا۔ ان تمام اخراجات کے لیے چار کروڑ بیس لاکھ روپے کا بجٹ بھی منظور کر دیا گیا ہے۔“
اس کلب کے قیام کا اعلان صوبائی وزیر ثقافت، کھیل اور امور نوجوانان عاطف خان نے بھی ٹویٹر کے ذریعے کیا۔
لیڈیز کلب کا بنیادی مقصد کیا ہے، اور اس سے خواتین کو کیا فائدہ ہوگا؟
لیڈیز کلب ایک ایسی عمارت ہوتی ہے جہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہاں خواتین کو اپنے روزمرہ کے سماجی، سیاسی، معاشی و کاروباری مسائل پر بحث مباحثوں کا موقع ملتا ہے۔ روزانہ نئے لوگوں کیساتھ میل جول بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ نئے کاروباری مواقعوں کے ساتھ ساتھ خواتین شہر میں ہونے والی سرگرمیوں سے باخبر رہیں گی۔ اس کے علوہ وہ کلب میں تفریح کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرکے معیاری وقت بھی گزار سکیں گی۔
انیسویں صدی کے اوائل میں لیڈیز کلب کا تصور اس وقت سامنے آیا تھا جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں متوسط طبقے کی سفید فام اور بعد میں سیاہ فام خواتین نے سماجی و ادبی مباحثوں کے لیے اکٹھا ہونا شروع کیا تھا۔ ان خواتین کا یہی اجتماعی میل جول اور بحث مباحثے باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر گئے اور امریکی معاشرے میں بڑی سماجی تبدیلیوں کا باعث بنا۔
پشاور کی خواتین کا لیڈیز کلب کے حوالے سے کیا رد عمل ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے پشاور کی خواتین سے اس کلب کے بارے میں سوشل میڈیا پر خبر دی تو چند ہی لمحوں میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے نہایت خوشی کا اظہار کیا۔ اگرچہ زیادہ تر خواتین نے اس اقدام کا خیرمقدم کیا اور مختلف تجاویز دیں لیکن ایک نے ”سوئمنگ پول” فرمائش بھی کی۔
جیسا کہ ہما خٹک کہتی ہیں یہ بہت اچھی بات ہے کہ خواتین کو اپنی ثقافت اور رواج کے اندر رہ کر ایک ایسی جگہ مل رہی ہے۔ اس کلب میں ان خواتین کے لیے جگہ ہونی چاہیئے جن کے دفاتر نہیں ہیں اور گھر سے کام کرتی ہیں۔ اگر ان کے لیے اس کلب میں ایسا ایک کارنر مختص کیا جائے تو بہت اچھا ہوگا۔“
نادیہ محمد کہتی ہیں کہ” کلب تک رسائی یا ممبر شپ کو کسی خاص طبقے تک محدود نہ رکھا جائے۔“
صائقہ بابر کہتی ہیں ’’ کلب کے اوقات رات دیر تک رکھے جائے تاکہ ورکنگ اور نان ورکنگ تمام قسم کی خواتین اس کلب سے استفادہ حاصل کر سکیں۔“
وگمہ علی کہتی ہیں ”ایسی ہی ایک محفوظ جگہ کی ضرورت تھی۔ جہاں خواتین ”ہینگ آؤٹ’’ کر سکیں۔ اس میں سٹریس ریلیف ایکٹیویٹیز کو شامل کیا جانا چاہئے۔“
لیڈیز کلب کا بنیادی مقصد کیا ہے، اور اس سے خواتین کو کیا فائدہ ہوگا؟
لیڈیز کلب ایک ایسی عمارت ہوتی ہے جہاں صرف خواتین کو جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہاں خواتین کو اپنے روزمرہ کے سماجی، سیاسی،
معاشی و کاروباری مسائل پر بحث مباحثوں کا موقع ملتا ہے۔ روزانہ نئے لوگوں کیساتھ میل جول بڑھانے کا موقع ملتا ہے۔ نئے کاروباری مواقعوں کے ساتھ ساتھ خواتین شہر میں ہونے والی سرگرمیوں سے باخبر رہتی ہیں۔اور کلب میں تفریح کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرکے اچھا وقت بھی گزار لیتی ہیں۔ دراصل یہی ”لیڈیز کلب” کے بنیادی مقاصد و فوائد ہیں۔
انیسویں صدی کے اوائل میں لیڈیز کلب کا تصور اس وقت سامنے آیا تھا جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں متوسط طبقے کی سفید فام اور بعد میں سیاہ فام خواتین نے سماجی و ادبی مباحثوں کے لیے اکٹھا ہونا شروع کیا تھا۔ ان خواتین کی یہی اجتماعی میل جول اور بحث مباحثے باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کر گئے اور امریکی معاشرے میں بڑی سماجی اصلاحات کا باعث بنا۔
کیا پشاور میں اس سے پہلے لیڈیز کلبز تھے؟
پشاور کے یونیورسٹی ٹاؤن میں پچھلی کئی دہائیوں سے ایک کلب تھا جو کسی زمانے میں بہت فعال ہوا کرتا تھا۔ اس کلب نے خواتین کے ملنے ملانے اور ان کے کاروبار کو پھلنے پھولنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن اے این پی کے دور حکومت میں اس کلب میں عام عوام کے لیے ایک ریستوران کھلنے کے بعد زیادہ تر خواتین نے یہاں آنا جانا بند کر دیا تھا۔ اگر چہ بعد میں اس ریسٹوران کو نئی حکومت نے بند کروا دیا۔اب یہ کلب فعال نہیں رہا ہے۔ لیکن سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اس کلب کے مسائل بھی جلد حل کر لیے جائیں گے۔
اس کے علاوہ پشاور میں “انٹرنیشنل ویمن کلب” کے نام سے ایک اور کلب بھی تھا، جس کی کوئی مخصوص عمارت نہیں تھی۔
موجودہ لیڈیز کلب کا افتتاح کب ہوگا، اور اس کا ممبر بننے کیلئے کیا شرائط ہیں؟
اسفندیار خٹک نے بتایا کہ رواں سال مئی تک اس کلب کا افتتاح ہوگا جس کے بعد کلب کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ایک سادہ فارم بھروا کر معمولی رکنیت کی فیس بھی رکھی جائے گی۔
خیبر پختونخوا میں ماضی میں صوبائی حکومتوں نے خواتین کی سہولت کے نام پر کئی منصوبوں کا اعلان کیا تھا جن میں سے ایک ان کے لیے خصوصی بس سروس بھی تھی لیکن وہ بدانتظامی کی وجہ سے زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوئی تھیں۔ اس مرتبہ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اسے کامیاب بنانے کے لیے کیسے اقدامات اٹھاتی ہے۔