چودہ اگست 2019 ، سری نگر ائیرپورٹ
گیٹ کے پاس جموں و کشمیر پولیس کے چند اہلکار پہلے نظر آتے تھے لیکن آج وہ بغیر اسلحے کے دور ایک کونے میں گہری سوچ میں بیٹھے ہیں، ان کی حالت زار ان کے خالی ہاتھوں سے عیاں ہورہی ہے۔
مرکزی سکیورٹی فورسز کا جوان ایمبولینس کو روک کر آنکھوں کے کیمرے سے پہلے ڈرائیور اور پھر میرا ایکسرے کرتا ہے، ڈِکی اور بونٹ کھلواکر ہر کونے کو چھان مارتا ہے، میرے سامنے آکر مہاراجہ ہری سنگھ کی طرح رعب دار لہجے میں کہتا ہے ائیرپورٹ آنے کا کیا مقصد ہے؟ ٹکٹ دکھاؤ۔۔۔
میں ڈرائیور کی جانب دیکھتی ہوں ،جو میری بے بسی کو سمجھ کر حالات سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ہمیں گاڑی سے نیچے آنے کا حکم دیتا ہے، ہم شریف بچوں کی طرح حکم کا پالن کرتے ہیں اور وہ ہمارے آس پاس گہری نظر ڈالتا ہے جیسے ہم نے کپڑوں میں اسلحہ چھپایا ہے، جو اسلحہ چھپاتے ہیں ان کو یہ دیکھتے نہیں۔
وہ دل میں خوش ہورہا ہے کہ اس کی بندوق سے ہم کتنا خوف محسوس کر رہے ہیں۔ دور بیٹھے کشمیری پولیس والوں کی نظریں مجھ پر جیسے ٹھر گئی ہیں مگر میں اب ان سے نظریں چراتی ہوں، مجھ سے ان کی بے بسی نہیں دیکھی جاتی ۔
تلاشی کے پہلے مرحلے سے فارغ ہوکر ایمبولینس آگے بڑھنے لگتی ہے۔ یہاں سے ائیرپورٹ تک آدھے کلو میٹر کے فاصلے میں درجنوں مسافر اپنا سامان اٹھائے پیدل چل رہے ہیں، کرفیو لگا کر آٹھ لاکھ افراد کو باندی بنالیا ہے۔
کشمیریوں کو ہر طرح سے اذیت دی جاری ہے، بیچ راہ میں فوجی گاڑیاں ہیں اور ان میں موجود فوجی ہر ایک کو تاڑ رہے ہیں۔ ویسے بھی بھارت کے لیے ہر کشمیری مشکوک ہے حتیٰ کہ وہ بھی جن کی چھتوں پر آج بھی بھارتی پرچم لہراتا ہے اور وہ بھارت کی ایما پر سن سنتالیس سے آزادی پسندوں کو عتاب کا نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔
وہ بے اختیار ہنسے جارہا ہے اور مجھے بھی ہنسے پر مجبور کر رہا ہے۔ ائیر پورٹ کے گیٹ کے سامنے بھی بعض مین سٹریم سیاست دانوں کے چھتوں پر ترنگا ہے اور نیچے گیٹ پر بھاری فوجی گاڑیاں ،گھر کے افراد اندر قید ہیں۔ شاید اس کی نظیر کسی اور ملک میں نہیں مل سکتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں ایک فوجی کے پاس موبائل فون بھی ہے، میں فوراً اس کے پاس جاتی ہوں اور بچوں کو ایک فون کرنے کی درخواست کرتی ہوں، وہ بغیر کچھ کہے دوسری طرف چلا جاتا ہے لیکن انڈگو ائیرلاینز کے کاؤنٹر پر ملازمہ مجھے اپنے لینڈ لائن فون کی طرف اشارہ کرکے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے۔
میں ان کے فون سے بچوں کے نمبر ملانے کی کئی بار کوشش کرتی ہوں مگر ہر بار مایوسی ہوتی ہے۔ میرے بائیں جانب کرسی پر بیٹھی ایک لڑکی بہت رو رہی ہے، میں اس کے قریب آکر اس سے رونے کی وجہ پوچھ رہی ہوں، وہ کہتی ہے اس کے والد چندی گڑھ کے ایک ہسپتال میں تین روز پہلے انتقال کرچکے ہیں اور انہیں پتہ نہیں کہ ان کو دفنایا گیا ہے یا ان کی میت ہسپتال میں پڑی ہے، وہ کلگام سے یہاں تک پہنچ پائی ہے مگر اس کو چندی گڑھ کی ائیر ٹکٹ ابھی تک نہیں مل پائی۔ میں ائیر لائنز میں اپنے ایک جاننے والے کو تلاش کرتی ہوں جو اس لڑکی کی مدد کرنے کی یقین دہانی کراتا ہے۔
نوجوان روپے دے کر ٹکٹ لیتا ہے اور اس کی آنکھوں میں ایک موہوم سی امید پانی بن کر بہنے لگتی ہے۔
میں جواب دینے ہی والی تھی کہ ڈرائیور نے گاڑی کا ہارن بجا کر واپس جانے کا اشارہ کیا۔ میں ائیرپورٹ میں ہزاروں بے بس کشمیریوں کی حالت پر اندر ہی اندر خون کے آنسو رو رہی ہوں۔ فوجی گاڑیوں میں موجود جوان ہماری بے بسی پر قہقہے لگا رہے ہیں۔
نوٹ: یہ کشمیر کی سینیئر صحافی نعیمہ احمد مہجور کی اس سلسلے کی آخری ڈائری ہے۔ اس سے پچھلی ڈائریز اوپر ’مزید پڑھیں‘ میں موجود ہیں۔