پشاور کے فردوس بازار میں واقع افغان مارکیٹ کی زمین پر گذشتہ کئی دہائیوں سے ملکیت کا تنازع چل رہا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے دکاندار اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشانی کا شکار ہیں۔
تقریباً 300 چھوٹی اور بڑی دکانوں پر مشتمل اس مارکیٹ کی ملکیت کا دعویٰ افغانستان کا سرکاری بینک کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب پشاور کے ایک رہائشی نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ زمین اس کی ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ میں ایک کیس بھی چل رہا ہے جس میں کبھی افغان حکومت اور کبھی دعویٰ کرنے والے شخص کے حق میں فیصلہ آجاتا ہے لیکن ابھی تک اس حوالے سے مستقل فیصلہ نہیں سنایا گیا ہے۔
افغان حکومت کا موقف ہے کہ تقریباً 12 کنال پر مشتمل اس زمین کی ملکیت اس کے پاس ہے اور اس کا آدھا حصہ اس نے 1946 میں باقی آدھا پاکستان کی آزادی کے بعد خریدا تھا۔
اس مارکیٹ کے ایک کونے میں افغان قونصل خانے نے دفتر بھی بنا ررکھا ہے جو اس مارکیٹ کے معاملات کو سنبھالتا ہے اور اس دفتر میں افغان قونصل خانے کے اہلکار تعینات ہیں۔
اس سارے معاملے میں ایک طرف جہاں سفارتی سطح پر پریشانی موجور ہے تو وہیں مارکیٹ میں دکاندار بھی پریشان ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک دکاندار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’افغان مارکیٹ سے تقریباً تین ہزار دکانداروں کے گھر کا چولہا جل رہا ہے اور اسی مارکیٹ سے روزی روٹی کما رہے ہیں لیکن تنازع کی وجہ سے دکانداروں کو اپنا کاروبار خراب یا ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔‘
حیات خان کے والد نے اس مارکیٹ میں ایک دکان کرائے پر لی تھی اور گذشتہ 20 سالوں سے ان کا خاندان یہاں کاروبار کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’اب مسئلہ یہ ہے کہ کبھی کبھی وہ شخص جو اس زمین پر دعویٰ کرتا ہے آ کر ہمیں کہتا ہے کہ دکانیں خالی کرو۔ اس سارے تنازع سے ہمارے کاروبار پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ دکان کا کرایہ کون وصول کرتا ہے، تو جواب میں انہوں نے بتایا کہ شروع دن سے وہ دکان کا کرایہ مارکیٹ میں واقع افغان قونصل خانے کے اہلکاروں کو دیتے آئے ہیں جبکہ دکان کو کرائے پر لینے کے حوالے سے ان کے پاس کوئی کنٹریکٹ نہیں موجود ہے۔
اسی مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے ایک دکاندار گل محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا اس کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے کہ مارکیٹ افغانستان کی ہے یا پاکستان کی، وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ان کے کاروبار کو بچایا جائے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک دکان کے کرایہ دار نے بتایا کہ اس زمین پر دعویٰ کرنے والے شخص نے جعلی اسناد بنا رکھے ہیں جبکہ اصل میں زمین افغان حکومت کی ہی ہے اور افغان حکومت کے پاس اس کے ثبوت بھی موجود ہیں تاہم چونکہ کیس عدالت میں ہے تو افغان حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ زمین کی ملکیت کی دعویداری عدالت میں ثابت کریں۔
اس سارے معاملے پر جب انڈپینڈنٹ اردو نے افغان مارکیٹ میں واقع افغان نینشل بینک کے زیر سایہ چلنے والے دفتر کے اہلکار سے موقف لینا چاہا تو انہوں نے بتایا کہ ان کو اجازت نہیں ہے کہ وہ اس معاملے پر بات کریں۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ پر کیس چل رہا ہے اور افغان حکومت کے پاس زمین کی ملکیت کے سارے ثبوت موجود ہیں اور عدالت میں اس کو پیش کر سکتے ہیں۔
ان کے مطابق پہلے یہاں پر افغان قونصل خانے کا دفتر ہوا کرتا تھا اور بعد میں اس پر یہ مارکیٹ تعمیر کیا گیا۔
اہلکار کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے زمین پر دعویٰ کرنے والے شخص کے حق میں 2014 میں فیصلہ سنایا تھا اور اس فیصلے کے خلاف انہوں نے عدالت میں اپیل بھی کی تھی کہ اس فیصلہ پر ںظر ثانی کی جائے۔
دکانداروں کے مطابق دکانوں کے کرائے 1100 سے 1500 روپے تک ہیں، زیادہ تر دکانیں مارکیٹ میں دکانداروں نے خود تعمیر کی ہیں جبکہ اس کو صرف زمین فراہم کی گئی تھیں۔
اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو نے پشاور میں واقع افغان قونصل خانے کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن دفتر کے لینڈ لائن نمبر پر جواب موصول نہیں ہوا۔