فلسطینی گروپ حماس نے سیزفائر کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت غزہ میں ساڑھے چار ماہ تک کوئی مسلح لڑائی نہیں ہوگی، اس دوران تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، اسرائیل غزہ کی پٹی سے اپنی فوجیں واپس بلائے گا اور اپنی جنگ کا خاتمہ کرے گا۔
خبررساں ادارے روئٹر کے مطابق اس گروپ کی یہ تجویز گذشتہ ہفتے کی ایک ایسی پیشکش کے بعد سامنے آئی جو قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے بھیجی گئی تھی اور اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے منظور شدہ بھی تھی۔
حماس کی تجویز کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے فوری طور پر کوئی عوامی رد عمل سامنے نہیں آیا، جس کا کہنا ہے کہ وہ حماس کے خاتمے تک غزہ سے اپنی فوجیں نکالنے کو تیار نہیں۔
حماس کی جوابی تجویز تین مراحل پر مشتمل ہے اور ہر مرحلہ 45 دنوں کا ہے۔ حماس باقی اسرائیلی قیدیوں کا فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کرے گی، غزہ کی ازسرنو تعمیر شروع ہو سکے گی، اسرائیل اپنے تمام فوجی نکالے گا اور لاشوں اور باقیات کا بھی تبادلہ ہوگا۔
امریکی سیکریٹری اینٹنی بلنکن ثالثی کرنے والے ممالک قطر اور مصر کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد گذشتہ رات اسرائیل پہنچے ہیں۔
مذاکرات کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ حماس کی جوابی تجویز کے لیے شروع میں مستقل سیزفائر کی ضمانت کی ضرورت نہیں، لیکن آخری قیدیوں کی رہائی سے قبل سیزفائر کے دوران لڑائی کے خاتمے پر اتفاق کرنا ہوگا۔
حماس کے سیاسی دفتر کے ایک رکن عزت الرشیق نے تصدیق کی کہ تجویز مصر اور قطر کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل تک پہنچا دی گئی ہے۔
I had a productive discussion with @MBA_AlThani_ in Doha. The constant engagement at the highest level of our governments reflects our relentless focus on securing the release of all hostages and achieving a pause in fighting to address the dire humanitarian situation in Gaza. pic.twitter.com/WdiCllpwSK
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) February 6, 2024
انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہم اپنے فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کے خاتمے اور مکمل اور دیرپا سیز فائر کے ساتھ ساتھ ریلیف، امداد، پناہ اور تعمیر نو فراہم کرنے کے لیے مثبت جذبے کے ساتھ اس سے نمٹنے کے خواہاں تھے۔‘
دستاویز کے مطابق پہلے 45 دن کے مرحلے میں اسرائیلی جیلوں سے فلسطینی خواتین اور بچوں کی رہائی کے بدلے میں تمام اسرائیلی خواتین قیدیوں، 19 سال سے کم عمر مردوں اور بزرگوں اور بیماروں کو رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل آبادی والے علاقوں سے بھی اپنی فوجیں واپس بلا لے گا۔
دوسرے مرحلے پر عمل درآمد اس وقت تک شروع نہیں ہوگا جب تک فریقین ’باہمی فوجی کارروائیوں کو ختم کرنے اور مکمل طور پر پرامن رہنے کے لیے ضروری ضروریات پر بالواسطہ بات چیت‘ مکمل نہیں کرتے۔
دوسرے مرحلے میں باقی ماندہ مرد قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں کی سرحدوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا شامل ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیسرے مرحلے کے دوران لاشوں اور باقیات کا تبادلہ کیا جائے گا۔ اس سیزفائر سے غزہ کے شہریوں کو خوراک اور دیگر امداد کی فراہمی میں بھی اضافہ ہوگا، جنہیں بھوک اور بنیادی اشیا کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
وسطی غزہ کی پٹی میں دیر البلاح میں اقوام متحدہ کے ایک سکول میں رہنے والے چار بچوں کے والد یامین حماد نے ایک میسجنگ ایپ کے ذریعے روئٹرز کو بتایا: ’لوگ پرامید ہیں، ساتھ ہی وہ دعا کرتے ہیں کہ یہ امید ایک حقیقی معاہدے میں تبدیل ہو جائے جس سے لڑائی ختم ہو۔‘
غزہ کی پٹی کے جنوبی کنارے پر واقع رفح میں 23 لاکھ آبادی میں سے نصف مصر کے ساتھ سرحدی باڑ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ وہاں رات گئے اسرائیلی حملوں میں جان سے گئے 10 افراد کی لاشیں ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھی گئی ہیں۔
وہاں ان کے رشتہ دار رو رہے تھے۔
سوگوار محمد ابوندی نے کہا: ’بلنکن کا ہر دورہ حالات کو پر امن کرنے کے بجائے مزید خراب کرتا ہے، ہمارے اوپر مزید حملے ہوتے ہیں، ہمیں مزید بمباری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور امریکہ فلسطینی عوام کے خلاف جنگ کا اہم شراکت دار اور سربراہ ہے۔‘
غزہ کی وزارت صحت کے بقول سات اکتوبر کو شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 27 ہزار 585 فلسطینی جان سے گئے جبکہ ہزاروں کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
آخری سیزفائر نومبر کے آخر میں صرف ایک ہفتے پر محیط تھا۔