ڈھول بجانے والا فنکار ہوتا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیونکہ اکثر پاکستان میں شادی بیاہ کی تقریبات میں ڈھول بجانے والوں کے لیے کھانے تک انتظام الگ کیا جاتا ہے۔
کوئٹہ میں ڈھول بجانے والے محمد آصف کا تعلق بلوچ قوم کے سرمست قبیلے سے ہے جو گذشتہ 15 سالوں سے ڈھول بجا رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے آصف نے بتایا کہ ’ہمارے کام کا کچھ پتہ نہیں۔ ایک دن کام ہے تو پانچ دن نہیں یا پانچ دن ہے تو 15 دن نہیں۔ ایسے زندگی گزارنا مشکل ہے۔‘
’میرے 10 بچے ہیں، کمانے والا میں اکیلا ہوں۔ اگر میں کام کے لیے نکلتا ہوں تو بچوں کے لیے کچھ نا کچھ کھانے کے لیے لاتا ہوں۔ اگر میں نہ نکلوں تو مجھے کوئی نہیں دے گا۔‘
’اگر کام نہیں ہوگا تو آخر میں ہم ڈھول اٹھا کر بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ ظلم ہے کہ میراثی انسان نہیں یا میراثیوں کی کوئی عزت نہیں۔‘
اسی طرح کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور ڈھولچی محمد آصف انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ’بہت سے لوگ دیکھے جو ڈھول پر ناچنے کے بعد، ہمارے ساتھ بیٹھنے کے بعد گھر والوں کو کہتے ہیں ہمیں کس کے ساتھ بیٹھا دیا؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’وہ ہمیں انسان نہیں سمجھتے۔ کیا میراثی انسان نہیں؟ ان کی زندگی نہیں ہوتی؟‘
رمضان کے مہینے میں جہاں مسلمان عبادتوں میں مصروف ہوتے ہیں تو وہیں شادی بیاہ کے تقریبات بھی ختم ہو جاتی ہیں۔
تقریبات کے نہ ہونے کی وجہ سے ڈھول بجانے والوں کے یہاں فاقے کا عالم ہوتا ہے۔
ڈھولچی محمد آصف کا کہنا ہے کہ ’رمضان میں ہم سب اپنے اپنے علاقے چلے جاتے ہیں اور رات میں سحری کے وقت گلیوں میں ڈھول بجا کر لوگوں کو جگانے کا کام کرتے ہیں اور جمعے کے دن مختلف دکانوں اور گھروں پر جاتے ہیں تو وہ لوگ ہمیں کوئی آٹا تو کوئی پیسے دیتے ہیں۔
’کوئی کپڑے دے دیتے ہیں مطلب حسب توفیق لوگ دے دیتے ہیں۔‘