اذان اور مؤذن: پشاور کی تاریخی سنہری مسجد کے مؤذن مولانا اسماعیل

پشاور کی سہنری مسجد کے مؤذن مولانا محمد اسماعیل گذشتہ 30 سالوں سے اس مسجد میں مؤذن سمیت امامت کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

’اذان اور مؤذن‘ رمضان المبارک کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کی نئی سیریز ہے جس میں پاکستان بھر سے چنیدہ مساجد کے مؤذن اور ان کے اذان دینے اور سیکھنے کے سفر کو قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ اس سلسلے کی پانچویں قسط ہے۔


’خوشی اور فخر کا احساس ہوتا ہے جب میری دی ہوئی اذان سن کر نمازی شوق سے جوق درجوق مسجد میں جمع ہو جاتے ہیں۔ مؤذن کا کام مشکل ضرور، لیکن اس کا اجر بہت زیادہ ہے۔‘

یہ کہنا تھا پشاور کے تاریخی سنہری مسجد کے مؤذن مولانا محمد اسماعیل کا جو گذشتہ 30 سالوں سے اس مسجد میں مؤذن سمیت امامت کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کی رمضان سیریز ’اذان اور مؤذن ‘ میں ہم نے سنہری مسجد کے مؤذن سے ان کی زندگی کے بارے میں باتیں کی ہیں اور ان سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ کسی بھی مسجد میں مؤذن کا کردار کتنا اہم ہے اور یہ ذمہ داری کتنی مشکل ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا محمد اسماعیل نے بتایا کہ 30 سال پہلے جب ان کی اس وقت داڑھی بھی نہیں تھی، اپنے دوستوں کے ساتھ اس مسجد میں نماز کے سلسلے میں آتے تھے اور انہوں نے اس وقت کے مؤذن سے اذان دینے کی درخواست کی تھی۔

مولانا اسماعیل کہتے ہیں کہ ’سنہری مسجد کی انتظامیہ کا یہ فیصلہ ہے کہ منتخب مؤذن کے علاوہ کسی کو بھی اذان دینے کی اجازت نہیں ہے اور اسی وجہ سے اس وقت مجھے اذان دینے کی اجازت نہیں ملی تھی۔

’سب سے پہلے اس مسجد میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دینا شروع کیے اور اسی دوران سنہری مسجد کے اس وقت کے مؤذن سید رحمٰن بیمار پڑ گئے تو مجھے اذان دینے کی ذمہ داری دے دی گئی اور تب سے اب تک میں پانچ وقت کی اذان کی خدمت کر رہا ہوں۔‘

مولانا اسماعیل نے بتایا کہ اذان دینے کی ذمہ داری جن کو بھی ملتی ہے وہ قسمت والے ہوتے ہیں کیوں کہ اس کا ثواب اور درجہ بہت زیادہ ہے اور اذان دینے سے ذہنی اور دلی سکون ملتا ہے اور اس میں عزت بھی زیادہ ہے۔

سنہری مسجد میں اذان دینے کے حوالے سے مولانا اسماعیل نے بتایا کہ سنہری مسجد میں اذان دینا ہر کسی کا شوق ہوتا ہے اور اللہ نے یہ خدمت میرے ذمے لگائی ہے۔

مؤذن بننے تک کا سفر

مولانا اسماعیل نے بتایا کہ 1990 میں انہوں نے ایک سال میں حافظ قران درویش مدرسے سے مکمل کرنے کے بعد اتفاقاً مجھے سنہری مسجد آنا پڑا اور ایک جماعت ہو چکی تھی لیکن کچھ دوستوں نے میری امامت میں دوسری جماعت کرانے کی درخواست کی۔

جب جماعت ختم ہو گئی، تو مولانا اسماعیل کے مطابق دوستوں نے تلاوت اور آواز سے متاثر ہو کر مسجد کے انتظامیہ سے بات کی اور پھر مجھ سے ایک قرات کا ایک ٹیسٹ لیا گیا۔ جس میں سلیکشن ہو گئی اور یہ نماز پڑھنا مسجد کی خدمت کرنے کے لیے ایک بہانہ بن گیا۔

اذان کے لیے پریکٹس ضروری ہے؟

مولانا اسماعیل سے جب اذان کے لہجے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اذان کے لیے پریکٹس کرنا بہت ضروری ہے لیکن میں جو اذان دیتا ہوں تو میں نے کسی کے ساتھ پریکٹس نہیں کی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اللہ نے مجھے ایک خوبی دی ہے کہ میں جس کسی کو بھی سنتا ہوں، اس کو کاپی کر سکتا ہوں لیکن میں نے کسی سے اذان کی ٹریننگ حاصل نہیں کی اور جو لہجہ ہے، یہ میرا اپنا ہے۔‘

مؤذن کی ڈیوٹی کتنی مشکل ہے؟

مولانا اسماعیل نے بتایا کہ مؤذن کی ڈیوٹی مشکل ہے کیوں کہ بارش ہو، دھوپ ہو یا کچھ بھی ہو لیکن مؤذن کو ہر حال میں اذان دینے کے لیے مسجد جانا پڑے گا اور خاص طور پر فجر کے لیے اٹھنا اور اذان دینا مشکل کام ہے۔

مولانا اسماعیل نے بتایا کہ کئی دفعہ دوست سیر و سیاحت پر جانے کے لیے اصرار کرتے ہیں لیکن اذان کی خدمت کی وجہ سے نہیں جا سکتا۔

مولانا اسماعیل نے بتایا کہ’پوری زندگی میں چار پانچ مرتبہ مشکل سے ہی دوستوں کے ساتھ سیر پر گیا ہوں لیکن اس کے علاوہ میں نہیں جا سکتا کیوں کہ اذان کی ڈیوٹی کرنا لازمی ہوتا ہے۔ سیر پر جانے کے علاوہ میں کسی کے ساتھ جا کر رات کو ٹھہر بھی نہیں سکتا کیوں کہ فجر کے لیے اذان دینے کے لیے آنا پڑتا ہے۔‘

سنہری مسجد، جہاں خواتین بھی نماز پڑھتی ہیں

سنہری مسجد 2020 میں خبروں کی زینت تب بنی تھی جب اس مسجد میں 22 سال بعد خواتین کو نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی تھی جبکہ 1996 تک اس مسجد میں خواتین باقاعدگی سے نماز پڑھنے آتی تھیں۔

مولانا اسماعیل نے بتایا کہ 1996 کے بعد امن عامہ کی صورتحال کی وجہ سے خواتین نمازیوں کے آنے پر پابندی عائد کی گئی تھی لیکن 2020 میں ان کو دوبارہ اجازت مل گئی اور یہ اقدام آس پاس کی خواتین کو نماز کی سہولیت دینے کے لیے لیا گیا تھا۔

مسجد مہابت خان، مسجد دلاور خان، مسجد قاسم علی خان جیسی تاریخی مساجد اندرون پشار میں واقع ہیں جو 1600 صدی میں بنائی گئی ہیں لیکن بعض مساجد جدید مغل طرز تعمیر پر بنائی گئی ہیں جس میں سنہری مسجد پشاور بھی شامل ہے۔ جو پشاور کے مرکزی صدر بازار سے متصل کینٹ کے علاقے میں واقع ہے۔

سنہری مسجد پر تعمیراتی کام کا آغاز 1946 میں ہوا تھا اور مولانا اسماعیل کے مطابق اس کی تعمیر ایک ہی ڈیزائنر نے کی ہے اور اس کی تعمیر پر 30 سال لگے ہیں تا ہم ثقافتی موضوعات پر لکھنے والے صحافی ہدایت اللہ خان کے مطابق اس مسجد کی تعمیر کی پہلی اینٹ 1942 میں رکھی گئی تھی۔

ہدایت اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سنہری مسجد سرکاری تحویل میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک آذاد انتظامیہ کے تحت کام کرتی ہے اور اس کے اخراجات بھی چندےسے پورے کیے جاتے ہیں۔

اسی وجہ سے 1942 میں جب تعمیراتی کام کا آغاز ہوا تو ہدایت اللہ کے مطابق 1962 تک تعمیراتی کام فنڈز کی کمی کی وجہ سے بند تھا اور 1962 میں دوبارہ اس پر کام کا آغاز ہو گیا اور 1992 میں مکمل کیا گیا یعنی 50 سال میں یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے۔

سہنری مسجد کا محل وقوع کیا ہے؟

سنہری مسجد کا کل رقبہ تقریباً 18 ہزار مربع فٹ ہے اور اس میں چھ ہزارتک نمازیوں کی گنجائش موجود ہے جبکہ اس مسجد کا اونچا ترین مینار128 فٹ ہے اور یہ مغل طرز تعمیر پر بنایا گیا ہے۔ جس میں گنبد، مینار، اور سرخ اینٹ استعمال کیے گئے ہیں۔


پہلی قسط: نورالاسلام کا صوابی سے فیصل مسجد تک کا سفر

دوسری قسط: حجازی اور مصری لہجوں کے ماہر بادشاہی مسجد لاہور کے انیس الرحمٰن

تیسری قسط: اذان اور مؤذن: کینسر کو شکست دے پر مؤذن برقرار رہنے والے کوئٹہ کے عبدالسمیع

چوتھی قسط: اذان اور مؤذن: شگر کی 650 سالہ امبوڑک مسجد کے نور محمد

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان