پاکستان: ’تحقیقاتی کمیشن رپورٹس سامنے نہیں آتیں یا کارروائی نہیں ہوتی‘

پاکستان میں ماضی میں کئی اہم معاملات پر عدالتی یا تحقیقاتی کمیشن بنائے گئے جن کی رپورٹس یا تو منظر عام پر ہی نہیں آئیں یا ان پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

حال ہی میں حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کا خط سامنے آنے پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی ہوں گے(تصویر: پکسابے)

پاکستان میں گذشتہ دو دہائیوں میں ہونے والے مختلف اہم واقعات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی یا انکوائری کمیشن بنائے گئے لیکن بہت کم ایسے تحقیقاتی کمیشن ہیں جن کی رپورٹس منظرعام پر آ سکیں۔

لیکن یہ تحقیقاتی کمیشن کیوں بنائے جاتے ہیں اور اب تک بنائے گئے کمیشنز کا کوئی فائدہ ہوا ہے یا وقتی طور پر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کمیشن بنایا جاتا ہے؟

حال ہی میں حکومت نے ہائی کورٹ کے چھ ججوں کا خط سامنے آنے پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی ہوں گے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے ماضی میں بننے والے کمیشنز، ان کی تحقیقات اور ان کے نتائج کے حوالے سے یہ رپورٹ مرتب کی ہے اور اس بارے میں ماہرین کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔

سینئر صحافی و تجزیہ کار شوکت پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ہر اہم ایشو پر انکوائری کمیشن بن جاتا ہے جو انکوائری کمیشن ایکٹ 1956کے تحت بنتا ہے۔

’لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر ایبٹ آباد واقعے تک بھی کمیشن بنے اور رپورٹس بھی بنی۔ ایسا نہیں ہے کہ کمیشن کام نہیں کرتا یا خانہ پری ہوتی ہے۔

’کمیشن کام کرتا ہے رپورٹ بھی لکھی جاتی ہے۔ لیکن اس سے اگلا مرحلہ رپورٹ کے نتائج پر عمل درآمد ہے جو نہیں ہوتا۔ اور عمومی طور پر رپورٹس بھی منظر عام پر نہیں آتیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’2013 کے انتخابات پر جو تحقیقاتی کمیشن بنا تھا اس کی رپورٹ آئی تھی جو سابق چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تھا اس نے اپنی فائنڈنگ لکھیں اور رپورٹ بھی منظر عام پر آئی جس میں کہا گیا کہ چار حلقوں کا جو الزام لگایا گیا وہ درست نہیں بلکہ 2013 کے انتخابات کے نتائج کو عام عوام کی رائے دہی قرار دیا۔

’اسی طرح ججوں کے خط کے معاملے پر بھی کمیشن بھی بنا ہے جو کام بھی کرے گا۔‘

داخلہ امور کے سینیئر صحافی ذوالقرنین حیدر، جنہوں نے گذشتہ دو دہائیوں میں کئی کمیشنز کی کارروائیوں پر رپورٹ کیا ہے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کمیشن تو ہمیشہ کسی معاملے کی تحقیقات کے لیے ہی بنایا جاتا ہے۔

’اب تک پاکستان میں جتنے انکوائری کمیشن بنے ہیں یا تو ان کی رپورٹس منظر عام پر نہیں آئیں یا رپورٹ اگر متعلقہ اداروں تک پہنچی ہے تو اس کے بعد اس پر کارروائی شروع نہیں ہوئی۔‘

انہوں نے کہا ’جیسے میں آپ کو مثال دیتا ہوں کہ فیض آباد دھرنا کمیشن ہے جو ریٹائرڈ آئی جی اختر شاہ کی سربراہی میں بنا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ جمع کروا دی ہے اب اس پر کب عمل ہو اس حوالے سے کچھ علم نہیں۔

’ایبٹ آباد انکوائری کمیشن بنا جس کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال تھے، رپورٹ مکمل ہو کر جمع ہوئی لیکن وہ رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔

’شیری مزاری کی نیب گرفتاری کو جب غیر قانونی قرار دیا گیا تو اس پر انکوائری کمیشن بن گیا کہ یہ آرڈرز کہاں سے آئے، گرفتاری کیوں ہوئی لیکن اس کمیشن کی بھی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی۔‘

تحقیقاتی کمیشن کام کیسے کرتا ہے؟

میسر معلومات کے مطابق جب کمیشن بن جاتا ہے اس کے بعد سربراہ کمیشن کے مطالبے پر انہیں معاون افسران بھی مہیا کیے جاتے ہیں کچھ حاضر سروس افسران کی بھی خدمات لی جاتی ہیں۔

اس کے بعد کمیشن کے لیے باقاعدہ سیکرٹیریٹ بھی بنایا جاتا ہے پورا دفتر ان کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ تمام ادارے پابند ہوتے ہیں کہ وہ کمیشن کو ہر ممکن معاونت فراہم کریں۔

 کمیشن کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ عہدیدار کو بلا سکتا ہے اور اس کا بیان قلمبند کیا جاتا ہے۔ شواہد اور بیان قلمبند کرنے کے بعد کمیشن اپنی رپورٹ مرتب کرتا ہے کہ اب تک کیا شواہد حاصل کیے ہیں، کس کا کیا کردار تھا، پھر کمیشن اپنی حتمی رائے دیتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے۔

جو بھی ملوث کردار ہو اس کے خلاف سفارشات مرتب کر کے حکومت کی دی جاتی ہیں کہ کمیشن کی تحقیقات کے مطابق یہ ملوث افراد ہیں جن کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

اس کے علاوہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سفارشات بھی بھجوائی جاتی ہیں۔

کمیشن سربراہان کو کیا مراعات ملتی ہیں؟

تحقیقاتی کمیشن میں سربراہان کو تنخواہ دی جاتی ہے یا مراعات اور اس کا بجٹ کیسے بنتا ہے؟

اس سوال پر داخلہ امور کے سینیئر صحافی ذوالقرنین حیدر نے بتایا کہ ’جتنے بھی کمیشن ہیں ان کی سربراہی یا تو ریٹائرڈ جج کرتے ہیں یا پھر ریٹائرڈ بیوروکریٹ کرتے ہیں، یہ تمام صاحبان ٹی اے ڈی اے اور مراعات لیتے ہیں۔

’نہ صرف یہ بلکہ اپنے ساتھ مختلف جاننے والوں کو بھی تحقیقاتی عمل میں ایڈجسٹ کرواتے ہیں اور ان کی تنخواہوں کی ادائیگی کی مد میں حکومت سے پیسے لیے جاتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’بلکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی آیا تھا کہ جب کمیشن کے سربراہان ریٹائرڈ سرکاری افسران کو تعینات کیا جاتا ہے تو ان کو اضافی تنخواہ کس کی چیز کی فراہم کی جاتی ہے کیونکہ حکومت سے وہ پینشن تو لے رہے ہیں۔

’اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ جتنے بھی کمیشن بنے ہیں چاہے ان پر عمل درآمد نہیں ہوا لیکن قومی خزانے سے خطیر رقم اس پر خرچ ہوتی ہے۔‘

پاکستان کے مشہور انکوائری کمیشن کون سے ہیں؟

حمود الرحمٰن کمیشن

حمود الرحمٰن کمیشن پاکستان کے دو لخت ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے بنایا گیا تاکہ ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے کہ مشرقی پاکستان کیسے الگ ہوئے اور افواج نے ہتھیار کیوں ڈالے۔

 جسٹس ریٹائرڈ حمودالرحمٰن کے سربراہی میں یہ انکوائری کمیشن بنایا گیا جسے بعد میں اسی نام سے پکارا گیا۔

کمیشن نے چار ماہ میں بیانات قلمبند کر کے دو سال میں اپنی سفارشات مرتب کیں تاہم اس کمیشن کی رپورٹ قومی مفاد کے تحت منظر عام پر نہ لائی جا سکی۔

ایبٹ آباد کمیشن

دو مئی 2011 کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اُسامہ بن لادن کی موت سے متعلق حقائق جاننے کے لیے حکومتِ پاکستان کی جانب سے بعد ازاں انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا۔

لیکن 13 برس گزرنے کے بعد بھی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی۔ ایبٹ آباد انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال تھے، کمیشن نے جنوری 2013 میں اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی۔

کوئٹہ خروٹ آباد کمیشن

مئی 2011 میں کوئٹہ کے علاقے خروٹ آباد میں سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں پانچ چیچن باشندوں کی اموات کی تحقیقات کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد اسلم ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا۔

سکیورٹی اہلکاروں نے انہیں مبینہ خودکش بمبار سمجھ کر نشانہ بنایا جبکہ بعد میں سی سی ٹی وی فوٹیج میں باشندے نہتے نظر آئے جس کے بعد معاملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن بنایا گیا تاہم اس کی بھی رپورٹ عام نہیں کی گئی۔

میمو گیٹ کمیشن

2012 میں میمو گیٹ کمیشن جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں بنایا گیا۔

 2011 میں برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی اہلکار نے امریکی عہدیدار مائیک ملن کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قابو میں کیا جائے۔

 یہ میمو یا یادداشت مئی 2011 میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک مکان میں موجودگی اور پھر امریکی حملے میں موت کے فوراً بعد بھیجا گیا تھا۔

اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ میمو دراصل امریکہ میں اس وقت پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے صدر آصف علی زرداری کی ایما پر بھیجا تھا۔

اس خبر پر پاکستان میں شدید ردعمل آنے پر اس میمو کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا گیا۔

جون 2012 میں جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی پر مشتمل تین رکنی کمیشن نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو جمع کروائی تھی۔

جس کے مندرجات اس کے چیف جسٹس نے نو رکنی لارجر بینچ میں پڑھ کر سنائے تھے۔

سنہ 2013 انتخابات انکوائری کمیشن

2015 میں تحریک انصاف کے الزمات پر اس وقت کے چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن بنایا گیا۔

جس میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز افضل خان بھی شامل تھے، کمیشن نے تین ماہ کارروائی کی اور اس کے بعد رپورٹ جاری کی جس میں منظم دھاندلی کے الزامات کو مسترد کیا گیا تھا۔

لاپتہ افراد کمیشن

لاپتہ افراد کے معاملے پر 2011 میں تشکیل دیے گئے کمیشن کی تفصیلات رواں برس جنوری میں سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جس کے مطابق لاپتہ افراد کمیشن میں مجموعی طور پر 35 افسران و ملازمین تعینات ہیں جن کی ماہانہ تنخواہیں 15 لاکھ سے زائد ہیں۔

کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال 6 لاکھ 74 ہزار ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کمیشن میں پنجاب کے 260، سندھ کے 163، کے پی کے 1336کیسز زیرالتوا ہیں۔ بلوچستان کے 468، اسلام آباد کے 55، آزاد کشمیر کے 15 کیسز زیر التوا ہیں۔

ساہیوال واقعہ کمیشن

جنوری 2019 میں پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران ایک گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی۔

 فائرنگ کے نتیجے میں ایک عام شہری خلیل، ان کی اہلیہ اور 13 سالہ بیٹی سمیت چار افراد جان سے گئے اور تین بچے زخمی ہوئے جبکہ تین مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

معاملے پر شدید ردعمل آنے پر سابق وزیراعظم عمران خان نے سانحہ ساہیوال کے تین ماہ بعد اپریل 2019 میں لواحقین کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے سانحے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم اس معاملے پر بھی تاحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان