یہ کوئی دو ماہ قبل کی بات ہے۔ ڈسڑکٹ قصور کی تحصیل چونیاں کے مقامی صحافی کامران اشرف نے ٹوئٹر پر ایک بچے محمد عمران کے اغوا کی خبر دی۔ میں نے ری ٹویٹ کرکے ثواب دارین حاصل کیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
چند دن بعد کامران اشرف نے پھر ایک آٹھ سال کے بچے کے اغوا کی خبر دی۔ قوم کی نظریں کشمیر کی آزادی کی جانب لگی تھیں سو کامران کی یہ خبر بھی کوئی خاص توجہ حاصل نہ کرسکی۔ ابھی کچھ روز ہی گزرے کہ خبر آئی کہ چونیاں میں تین بچے غائب ہیں ان کے والدین احتجاج کر رہے ہیں اور انہوں نے سڑک بلا ک کر دی ہے۔ یہ ایک مقامی خبر تھی، میڈیا پر کوریج بھی کوئی خاص حاصل نہ کرسکی، یہاں تک کہ 16 ستمبر آیا، دن 11 بجے جب قصبے میں تین بچوں کے اغوا پر احتجاج ہو رہا تھا اسی وقت ننھے فیضان کو اغوا کرلیا گیا۔ یہاں تک کہ اسی روز شام چار بجے اس کی لاش چونیاں کے انڈسٹریل اسٹیٹ سے مل گئی۔ سرچ آپریشن میں دیگر بچوں کے جسم کی باقیات بھی مل گئیں جن کا مقدر پہلے زیادتی پھر تشدد اور آخر میں قتل بنا۔
ہم پاکستانی صحافیوں کی مشکل یہ ہے کہ ہمارے ملک اور اس کے چھوٹے بڑے شہروں میں اتنا کچھ ہو رہا ہوتا ہے کہ ہمیں خبر کرید کرید کر ڈھونڈنی نہیں پڑتیں۔ یہاں تحقیقاتی رپورٹنگ کی نوبت نہیں آتی کیونکہ روز ہی کوئی نیا سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ گھوٹکی کے ہندو پرنسپل، چانڈکا میڈیکل کی مقتول طالبہ نمرتا کماری، لاڑکانہ میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کا انتظار کرتا تڑپ کر مر جانے والا میر حسن ابڑو، یا پھر ایمبولینس کا خرچہ برداشت نہ کر سکنے والے باپ بھائی کی ہلاکت یہ سب کچھ اندرون سندھ میں صرف ایک ہفتے کے اندر ہوا۔ بتائیں! خبروں کی کوئی کمی ہے؟ یہاں خبروں کے اس ملبے تلے قصور میں اغواء ہونے والے تین بچوں کی خبریں دب گئیں۔ اگر واویلا پہلے ہی بچے کے اغواء پر مچ گیا ہوتا تو شاید اس سے اگلا، دوسرا، تیسرا اور پھر چوتھا بچہ ہوس و درندگی کی بھینٹ نہ چڑھتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ چونیاں کے جس انڈسٹریل اسٹیٹ میں مٹی کی ڈھیریوں پر بچوں کی لاشیں ملی ہیں وہ حد نگاہ تک ایک ویران سنسان علاقہ ہے۔ یہاں کچھ روز قبل ایک لاوارث موٹر سائیکل کھڑی ملی تھی جس کی اطلاع ون فائیو پر دی گئی تھی۔ یہ موٹر سائیکل اب بھی پولیس کے قبضے میں ہے۔ اب عقل کا تقاضا تھا کہ پولیس اس علاقے کو اپنی نگرانی میں رکھتی۔ قصور پولیس کیا کرتی رہی ہے اور اب بھی کیا کر رہی ہے یہ خوب نظر آ رہا ہے۔
آج سوشل میڈیا پر ان چار معصوم بچوں کی تصاویر ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔ ننھی زینب تو یاد ہے نا، کیسی کیسی پریس کانفرنسز ہوئی تھیں۔ کیسے زینب کے والد کو ساتھ بٹھا کر اعلانات کیے گئے تھے، چائلڈ پروٹیکشن والے متحرک ہوگئے، قصور پولیس کی پھرتیاں بھی دیکھنے والی تھیں، ہو کیا رہا تھا یہ تو علم نہیں مگر زینب کے قاتل عمران کو پھانسی کی سزا دے کر ہم نے سمجھا تھا کہ گرد بیٹھ گئی، بھیڑیئے واپس جنگل کی جانب چلے گئے، قصور شہر میں اب بچے گلیوں میں کھیلتے ہوں گے، بانہوں میں بانہیں ڈالے خوب گھوم پھر رہے ہوں گے، ٹافیاں خرید کر مٹھاس چوستے ہوں گے اور مزے سے بغل میں سیپارہ دبائے قاری صاحب کے پاس قرآن پاک پڑھنے جا رہے ہوں گے۔
گذشتہ روز استاد وسعت اللہ خان صاحب نے اپنے ٹی وی پروگرام میں ڈی پی او قصور عبدالغفار سے پوچھا کہ یہ مسئلہ آخر ہے کیا؟ جواب ملا کہ اس کے لیے ہمیں معاملے کی روٹ کاز یعنی جڑ تک جانا ہوگا۔ اب یہ روٹ کاز ہے کس بلا کا نام؟ اور اس کمبخت روٹ کاز تک جائے گا کون؟ یہ کوئی نہ پوچھے، کیوں؟ جواب ندارد۔ حکومتی عہدیداران سے پوچھیں تو جواب ملتا ہے کہ محمد عمران جیسا ذہنی مریض اگر زینب کو دیکھ کر حیوان بن جائے تو حکومت بھلا کیا کر سکتی ہے۔
جنہیں جواب دہ ہونا چاہیے اگر وہی سوال کرنے لگیں تو سمجھ جائیں نااہلی اپنے جوبن پر ہے۔
چونیاں کے مقامی رپورٹر کامران اشرف پچھلے کئی دن سے ان بچوں کے لیے کیے جانے والے سرچ آپریشنز میں پولیس اور بچوں کے والدین کے ہمراہ موجود رہے۔ میں نے اسی حوالے سے پوچھا تو کامران کہتے ہیں کہ اب مجھ سمیت قصور کی سول سوسائٹی، مقامی لوگ اور کاروباری اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کے تجزیے کو کسی حد تک سچ سمجھنے لگے ہیں۔
یاد آیا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے زینب کے قاتل کے نام سے کئی درجن بینک اکاونٹس ہونے کا ہوشربا انکشاف کیا تھا، جو کہ ایک غلط خبر ثابت ہوئی جس پر لوگوں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کو خوب آڑھے ہاتھوں لیا تھا۔ مگر ڈاکٹر شاہد کے تجزیئے سمیت بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے اس شبے کا اظہار کیا تھا کہ زینب اور تین بچیوں کا قتل صرف ایک شخص محمد عمران کی ذہنی گندگی کا نتیجہ نہیں بلکہ اور بہت کچھ ہے جس کی تحقیق ہونی چاہیئے۔ یہ کوئی بہت ہی پیچیدہ اور بڑا نیٹ ورک ہے جو قصور میں بچوں سے زیادتی، تشدد اور قتل کے پیچھے سرگرم ہے۔ یہ گینگ بچوں کی تشدد پر مبنی ویڈیوز بناتا اور بیچتا ہے۔ یہ نامعلوم گینگ کسی نامعلوم سیاسی شخصیت کے زیر اثر نامعلوم مقام سے چلایا جاتا ہے۔ اس گینگ کے خریدار ڈارک ویب پر بچوں کی ویڈیوز بیچنے والے وہ نامعلوم افراد ہیں جو کہ دنیا بھر سے ان ویڈیوز کے عوض پیسے دیتے ہیں۔
اب ان نامعلوم حقائق کی کڑیاں جوڑنا ہماری انٹیلیجنس ایجنسیوں کے لیے کوئی ناممکن کام تو نہیں۔ ہمیں تو اپنی انٹیلیجنس ایجنسی کے عالمی نمبر فور ہونے پر فخر ہے۔ کیا بچوں کی جان سے قیمتی بھی کوئی شے ہے کیا قصور سے بڑھ کر بھی کوئی چیلنجنگ کیس ہے؟ بچے تو پورے پاکستان میں موجود ہیں اور گلیوں میں کھیلنے والے بچے بھی بہت ہیں۔ مگر قصور میں ایک خبر کے مطابق تین سال میں 700 سے زائد بچوں کے اغواء کی وارداتیں ہوئیں، کیا وجہ ہے کہ اتنا لائم لائٹ میں آنے کے باوجود ان حیوانوں کو قصور کے بچے ہی آسان ٹارگٹ نظر آتے ہیں؟ آخر قصور کے بچوں میں ایسا کیا ہے؟ اور اگر واقعی کوئی گینگ ہے تو وہ دیگر علاقوں یا شہروں میں وارداتیں کیوں نہیں کرتا؟ اگر گینگ نہیں ہے تو قصور کے لوگوں میں یہ حیوان کون ہیں کہاں بستے ہیں؟
ابھی کچھ روز قبل اردو نیوز کے صحافی وسیم عباسی نے اپنی ایک خبر میں بتایا تھا کہ اسلام آباد کے مصروف علاقے آبپارہ کی حدود میں اسی نوعیت کے ایک واقعے کا انکشاف ہوا، جہاں اسلام آباد پولیس کا ایک اہلکار لوئر کلاس کے بچوں سے دوستی کر کے انہیں اپنے ساتھ اسی محلے میں موجود ایک کرائے کے کمرے میں لے جا کر ان بچوں کی نازیبا ویڈیوز بناتا، زیادتی کے الزامات بھی لگے۔ یہ سب کسی پسماندہ علاقے میں نہیں بلکہ ملکی انٹیلیجنس ایجنسی کے مرکزی دفتر آبپارہ کے علاقے میں ہوا۔ ایسے ہی نوے کی دہائی میں لاہور کے اندرون شہر میں سو سے زائد بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا سیریل کلر جاوید اقبال کا کیس تھا جس نے ایک عرصے تک دہشت پھیلائے رکھی۔ یہ انفرادی مجرموں کے ہاتھوں پے در پے ہونے والے جرائم کی ایسی عجیب سی کہانیاں ہیں جو اب ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلیجنس کی مہارت سے کچھ اوپر کی چیز لگتی ہے۔
اجی چھوڑیئے، انٹیلیجنس تک کیوں جایئے، یہاں تو حکومت کی تسلی کا عالم یہ ہے کہ زینب واقعے کے بعد بھی قصور میں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگائے گئے بلکہ مختلف بینکوں، مساجد کے پرائیوٹ کیمروں پر اکتفا کر لیا گیا۔ زینب کا قاتل ایسی ہی سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے پکڑا گیا تھا۔ ویسے حکومتی اشرافیہ کے لیے یہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی ایک کھلونا ہی ہیں جنہیں اسلام آباد شہر کے ہر نکڑ پر نصب کر کے ہر آتی جاتی گاڑیوں کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے مرد و عورت کی تصاویر اتارنے اور لیک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر وہ قصور جسے سیف سٹی بنانے کی اشد ضرورت ہے اس کے لیے یقیناً بجٹ نہیں ہوگا۔
کاش گھر کی چار دیواری میں بٹھا دینا ہی حل ہوتا تو قصور کے باپ اپنے بچوں کو کبھی دن کی روشنی دیکھنے نہ دیتے۔ کاش کہ برقع پہنا دینا ہی اس درندگی کا حل ہوتا تو قصور کی سب مائیں ننھے ننھے سیاہ برقعے بچے کی پیدائش سے قبل ہی سلوا لیتیں۔ کاش کہ قصور کے بچوں کا قصور جاننا ہمیں اتنا ہی آسان ہوتا۔