تقریباً تمام مہذب معاشروں میں قانون کی عملداری اور عدالتوں کے وقار کو قائم رکھنے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ ان قوانین کا مقصد عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنا، ان کا احترام کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔ ان قوانین کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کسی شخص کو فیصلوں پر مناسب قانونی تنقید یا تجزیے سے روکا جائے۔
اسی لیے عدالتی فیصلوں کو چیلنج کرنے کے لیے اپیل کی اجازت ہوتی ہے۔ اپیل کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ جج کی ایمان داری اور منصفی پر شک کیا گیا ہے بلکہ اس کا مقصد جج کے فیصلے میں کسی قسم کی خامی یا کوتاہی کی نشاندہی کر کے اسے دور کرنا ہوتا ہے تاکہ انصاف کے تقاضے بلا کسی شک و شبہ پورے کیے جا سکیں۔
اپیل پر فیصلے تبدیل ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب پہلے فیصلے یا اُس جج کی توہین نہیں ہوتی۔ بعض اوقات اپیل کے دوران جج کے تعصب کی طرف بھی نشاندہی کی جاتی ہے لیکن یہ بھی کسی طرح جج کی توہین نہیں سمجھی جاتی۔
نوے کی دہائی میں جسٹس قیوم کے احتساب کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے اپیل پر اپنے فیصلے میں کہا جج کا تعصب اتنا واضع ہے کہ پورے فیصلے کی سطح پر تیرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس مشاہدے کو بھی کسی طرح توہین عدالت نہیں گردانا گیا۔
امریکہ میں سپریم کورٹ کے تقریباً تمام فیصلوں کو قانونی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بہت سارے فیصلوں پر عوامی احتجاج بھی سامنے آتا رہا ہے۔ صدر بش کے انتخاب کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک بڑی عوامی اکثریت کی طرف سے تمسخر اور احتجاج کا نشانہ بنا۔
صدر بش کے پہلے چار سال میں ہرسال سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے۔ اس فیصلے پر متعدد تنقیدی تحریریں لکھی گئیں اور تقاریر کی گئیں۔ اسی طرح امریکی سپریم کورٹ کے Row Vs Wade مقدمے کے فیصلے پر پورا امریکی معاشرہ ابھی تک تقسیم ہے اور ہر سال اس فیصلے کے حق اور مخالفت میں لاکھوں لوگ مظاہرہ کرتے ہیں۔
میڈیا پر ایک طویل بحث ہوتی ہے اور ہر جج کے قانونی نقطہِ نظر اور ان کے فیصلے کو تعریف یا سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ان ججوں کے ذاتی خیالات اور ان کے ماضی یا کسی قسم کے سکینڈل کے بارے میں بھی کھل کر بحث ہوتی ہے۔ اخباروں میں ان کے طرز عمل کے بارے میں ہر قسم کی تنقید بغیر خوف و خطر ہوتی ہے۔ لکھنے والوں یا میڈیا پر بحث کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کی توہین عدالت کا نوٹس نہیں لیا جاتا اور نہ ہی انہیں جیل کی ہوا کھلائی جاتی ہے۔
ہاں ان وکیلوں یا ملزمان کو ضرور توہین عدالت کی سزا ملتی ہے، جو مقدمے میں بحث کے دوران جج کی بات ماننے سے انکار کرتے ہیں یا توہین آمیز لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ اس میں بھی انہیں پہلے خبردار کیا جاتا ہے اس کے بعد بھی اگر توہین آمیز سلسلہ جاری رہے تو تب ہی جج توہین عدالت پر سزا دیتا ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ کسی جج کے طرز عمل کے بارے میں بات کرنا، ان کے ماضی کی کسی کوتاہی کی نشاندہی کرنا یا ان کی طرف سے کسی پیشہ ورانہ کام میں غلطی کو افشاں کرنا کسی طرح بھی توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس طرح کی قانونی اور دلائل پر مبنی تنقید ججز کو اپنے طرز عمل کی تصحیح کا موقع دیتی ہے اور انہیں مستقبل کے فیصلوں میں مدد فراہم کرتی ہے۔
امریکہ میں کسی بھی وفاقی جج اور سپریم کورٹ کے جج کی تعیناتی سے پہلے جانچ پڑتال کا ایک طویل اور مفصل طریقہ کار شروع سے ہی وضع کر دیا گیا تھا۔ اس عمل کے دوران مجوزہ ججوں کے ماضی، ان کے خیالات اور ان کی قانونی اہلیت کے بارے میں تفصیلی چھان بین ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کی منظوری امریکی ایوانِ بالا یعنی سینیٹ دیتا ہے۔ اس منظوری کے عمل کے دوران جج کو سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے اور سینیٹرز کے تند و تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب سینیٹ کی کمیٹی کسی جج کے کردار، اس کی قانونی اور علمی اہلیت سے مطمئن ہو جاتی ہے تو تب ہی اس کی تعیناتی کی منظوری دیتی ہے۔
کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ سینیٹ نے ججوں کو سپریم کورٹ کے لیے نااہل قرار دیا۔ اس سارے عمل کے دوران کوئی شخص بھی کسی قسم کی اطلاع مجوزہ جج کے بارے میں سینیٹ کو مہیا کر سکتا ہے اور سینیٹ اس کے بارے میں امیدوار سے سوال و جواب کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے جج منتخب ہونے کے بعد بھی اس جانچ پڑتال سے مستشنیٰ نہیں ہوتے اور کسی قسم کی منفی معلومات مہیا ہونے پر ایک عوامی بحث شروع ہو جاتی ہے۔ لیکن کبھی بھی امریکی سپریم کورٹ نے ان لکھنے والوں کو یا تجزیہ نگاروں کو ان معاملات پر بحث کرنے پر توہین عدالت کا مرتکب ٹھہرایا اور نہ ہی انہیں سپریم کورٹ بلا کر توہین عدالت کا مقدمہ چلایا۔
ابھی حال ہی میں امریکی سپریم کورٹ کے نئے جج بریٹ کیوناؤ کی منظوری کے عمل کے دوران انہیں سخت ترین جانچ پڑتال اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے کالج کے زمانے کے جنسی سکینڈلز سے لے کر ان کی شراب نوشی، قانونی اہلیت اور کارکردگی پر کھل کر بحث کی گئی اور انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
اس سخت اور صبر آزما مرحلے سے گزرنے کے بعد ان کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری کی گئی۔ ان کے جج بننے کے تقریباً کچھ مہینے بعد، پچھلے ہی ہفتے ان کے بارے میں ایک نیا سکینڈل سامنے آیا۔
ایک کتاب کے مصنف نے سپریم کورٹ کے جج ہونے کے باوجود ان کے ایک نئے جنسی ہراسانی کے معاملے کا پردہ فاش کیا ہے۔ نہ اس کتاب پر پابندی لگائی گئی اور نہ ہی مصنف کو توہین عدالت کے مقدمے کا سامنا ہے۔
اس سارے عمل کا مقصد ایک صاف شفاف شہرت اور قانونی اہلیت کے حامل شخص کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تعینات کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی جج کی ذاتی توہین۔ اس عمل سے قانون کے ہاتھ مضبوط ہوتے ہیں اور انصاف کے حصول میں آسانی اور بہتری آتی ہے۔
ہمارے یہاں بدقسمتی سے ایسی کسی بھی کوشش کو توہین عدالت سمجھا جاتا ہے اور قانونی ادارے فوراً اپنے دفاع کے لیے حرکت میں آ جاتے ہیں۔ معمولی سی قانونی تنقید یا تجزیہ بھی ہمارے نازک مزاج ججوں پر گراں گزرتی ہے۔ اس عدم برداشت کا عروج چیف جسٹس افتخار چوہدری اور چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہر قسم کی تنقید قابل جرم ٹھہری ـــــ حتٰی کہ سابق اٹارنی جنرل اور نامور قانون دان عرفان قادر کا لائسنس تک معطل کر دیا گیا، جو کئی سالوں بعد اسی مہینے بحال ہوا ہے۔ قانونی حدود و قیود پھلانگ کر، سیاسی انجینیئرنگ کرتے ہوئے توہین عدالت کے الزام میں کئی سیاست دانوں کو نااہل قرار دے کر اور ان پر انتخابات میں پابندی عائد کر کے ان کے حلقہ انتخاب کے لوگوں کو ایک جمہوری حق سے محروم کیا گیا۔
قانون توہین عدالت کے اس بے جا اور سیاسی استعمال کی وجہ سے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہمارے ہاں توہین عدالت کے قانون میں تبدیلی کی جائے۔ اگر کسی جج کے ماضی کے بارے میں کوئی قابل اعتراض حقائق سامنے آئیں تو میڈیا یا پارلیمان کو ان کو سامنے لانے اور بحث کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اسی طرح ہر فیصلے کا قانونی اور سیاسی تنقیدی جائزہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے اور اگر اس فیصلے میں تعصب یا ناانصافی ہوتی نظر آ رہی ہو تو اس پر عوامی بحث کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔
ہمیں ججز کی تعیناتی کے موجودہ طریقہ کار پر بھی دوبارہ سوچ بچار کی ضرورت ہے، جس میں پارلیمان کا معنی خیز کردار ہونا چاہیے۔ گذشتہ دور میں ایسی ایک کوشش کو 18 ویں ترمیم کے وقت جسٹس افتخار چوہدری نے پارلیمان پر دباؤ ڈال کر ناکام کروا دیا تھا۔ ججوں کے احتسابی عمل میں بھی شفافیت کی ضرورت ہے جو عوامی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی طرح ہم ایک آزاد اور انصاف پر مبنی عدالتی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے حال ہی میں جاری احتسابی نظام پر اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جج صاحب خدشات کے صرف اظہار پر ہی اکتفا نہ کرتے بلکہ جہاں بھی انہوں نے ناانصافی محسوس کی تھی اس کی برملا نشاندہی کرتے اور اس پر مناسب احکامات بھی جاری کرتے۔
اسی طرح دو اہم سیاسی مقدموں میں، جن میں ضمانت اور ویڈیو ریکارڈنگ کے لیے معیار طے کیے گئے تھے، سپریم کورٹ کو بجائے خود قانون سازی کرنے کے، یہ معاملہ پارلیمان کو بھیجنا چاہیے تھا تاکہ اس پر منتخب عوامی نمائندے مناسب قانون سازی کرتے۔
سپریم کورٹ کے ان دو معاملات میں احکام جاری کرنے سے کئی حلقوں کو تنقید کا موقع ملا اور احتسابی نظام پر، جس پر خود چیف جسٹس نے بھی خدشات کا اظہار کیا ہے، اعتماد میں مزید کمی آئی ہے۔