نریندر مودی ایک مرتبہ پھر الیکشن جیت چکے ہیں اور حتمی نتائج کا انتظار کیے بغیر ہی حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم شروع ہو چکا ہے۔
مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی دیر تک جشن منائے گی لیکن ایک طرف جہاں مودی کے حامی خوش ہیں، وہیں ان کی فتح نے ایک سنجیدہ سوال کھڑا کر دیا ہے۔ کیا انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت کی انتخابات میں مسلسل کامیابی بھارت میں سیکولر جمہوریت کے خاتمے کی جانب اشارہ کرتی ہے؟
برطانوی سامراج کے نتیجے میں بھارت میں سیکولر نوعیت کی جمہوریت کی بنیاد پڑی اور 2014 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے پر نقادوں نے جمہوری اداروں کو ممکنہ طور پر درپیش چیلنجز کے حوالے سے خبردار کیا تھا، جو کچھ غلط بھی نہیں تھا۔
کم از کم ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ 19 سے 2015 کے درمیان بی جے پی کا ریکارڈ متنازع رہا۔ پارٹی نے مذہبی اقلیتوں، بالخصوص مسلمانوں، کو دیوار کے ساتھ لگایا اور ہندو قوم پرستوں نے ’گاؤماتا کے تحفظ‘ کے نام پر کئیوں کو سرعام تشدد کر کے مار ڈالا۔
انہوں نے اختلاف رائے رکھنے والوں کو ’شہری ماؤ نوازوں‘ کا لقب دے کر تنہا کیا، بیوروکریسی اور میڈیا کو ہندو بناتے ہوئے ایک خاص قسم کا ثقافتی انقلاب برپا کیا اور تعلیمی اداروں، ثقافتی اداروں اور سڑکوں پر ترقی پسند تحریک کے پھلنے پھولنے کے امکانات ختم کیے۔
معاشرے کو تقسیم کرنے کی پالیسی، ملک کی کمزور ہوتی معیشت اور شہریوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے خراب ریکارڈ کے باوجود مودی ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔
بل کلنٹن نے معاشی مفادات کے استدلال کو اپنایا تھا لیکن مودی اور ان جیسے پاپولسٹ لیڈروں مثلاً امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ترکی میں رجب طیب اردوغان نے مختلف سیاسی فامولہ اپنایا۔ یہ فارمولہ ہے ’خطرناک قسم کی اکثرتی قوم پرستی۔‘
ایک طرف جہاں اقلیتوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا وہیں ہندو اکثریت کو لبرل اور سیکولر اشرفیہ کے ہاتھوں مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہوئے حکومت کے نقادوں کو دبا کر انہیں لیڈر مخالف اور بھارت مخالف قرار دے دیا گیا۔
23 مئی کے الیکشن نتائج کوئی امید لے کر نہیں آئے۔ اسلاموفوبیا اور انتہا پسند قسم کی وطن پرستی نے بی جے پی کو 2014 کے مقابلے میں کہیں بہتر نتائج دیے ہیں۔
پارٹی نے اپنے طور پر سادہ اکثریت حاصل کر لی ہے اور اگر اتحادی نشستیں بھی شامل کر لی جائیں تو مودی کی نئی ممکنہ حکومت پارلیمنٹ میں بے حد طاقت ور ہو گی۔
بنیادی طور پراکثریتی قوم پرستی ایک سوچ ہے جس کے تحت چونکہ بھارت میں ہندو اکثریت میں ہیں لہذا سیاسی جماعتیں ان کی امنگوں اور شناخت کی ٹھیکے دار بنتے ہوئے سیکولرازم کو الوداع کہہ سکتی ہیں۔
بھارت کی کل آبادی کے 14.2 فیصد مسلمان اقلیتی برادری کئی دہائیوں سے مسلسل معاشی، سماجی اور سیاسی تنہائی کا شکار ہے اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی اور مودی صرف اور صرف تقسیم کرنے کی سیاست پر کامیاب ہوئے ہیں۔
موجودہ انتخابات اس نظریے سے لڑے گئے کہ یا تو آپ نریندر مودی کے ساتھ ہیں یا مخالف ہیں، کیونکہ مودی نے خود کو ایک ایسے مضبوط لیڈر کے طور پر پیش کیا جو اقلیتی حقوق کے حامی سیکولر خیالات کے سامنے بند باندھ سکتے ہیں، ’ہندو‘ سمجھی جانے والی پوری بھارتی قوم کے لیے بات کر سکتے ہیں، جو مسلم اکثریتی کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مزاحمت ختم کر سکتے ہیں اور جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سامنے ڈٹ سکتے ہیں۔
بی جے پی نے کئی متنازع امید وار کھڑے کیے جن میں مہاتما گاندھی کے قاتل کو ’حب الوطن‘ کہنے والے، تمام مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کرنے والے اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کرنے والے کئی ہندو مذہبی لیڈروں شامل ہیں۔
انہی امیدواروں میں سے کچھ کا اصرار تھا کہ چونکہ مودی ہندو راج قائم کریں گے لہذا مستقبل میں انتخابات کی ضرورت نہیں۔
ملک میں سیکولر جمہوریت کو خطرہ محض ہندو قوم پرست ایجنڈا رکھنے والی بی جے پی سے نہیں بلکہ اُن شہریوں سے بھی ہے جو اس خطرناک رجحان پر خاموش ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف تشدد معمول بن چکا ہے۔ خیال رہے کہ 1930 کی دہائی میں جرمنی میں نازیوں کے ابھرنے کی ذمہ دار صرف انتہائی طاقت ور سیاسی جماعت ہی نہیں تھی بلکہ اس کا ساتھ دینے والے عوام بھی تھے۔
آپ جتنی بھی کوشش کر لیں لیکن بھارت میں یہی مماثلت نظر آتی ہے۔
یہ ایک ایسا الیکشن تھا جس میں اکثریتی قوم پرستی کو الیکٹورل مینڈیٹ ملا ہے، جس کے بعد بھارت میں جارحانہ عناصر کو مزید شے ملے گی اور مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافے کا خدشہ ہے۔
یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں لیکن کیا بھارت میں مشکل سے حاصل ہونے والی سیکولر جمہوریت آنے والے سالوں میں زندہ رہ پائے گی، یہ دیکھنا باقی ہے۔
دبیش آنند وسٹ منسٹر یونیورسٹی میں شعبہ سیاست کے ایک پروفیسر اور ’ہندو نیشنل ازم ان انڈیا اینڈ دی پولیٹکس آف فیئر‘ کے مصنف ہیں۔
.............................
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔