امریکی ریاست لوزیانا میں امیگریشن جج کی طرف سے جمعے کو سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے محمود خلیل کو ملک سے نکالا جا سکتا ہے کیوں کہ انہیں امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔
قبل ازیں وکلا نے فلسطین کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہروں میں شرکت کرنے والے طالب علم محمود خلیل کی ملک بدری کی قانونی حیثیت پر دلائل دیے تھے۔
امیگریشن جج جیمی ای کومینز نے جینا میں ہونے والی سماعت کے دوران کہا کہ حکومت کا یہ مؤقف کہ خلیل کی امریکہ میں موجودگی سے ’ممکنہ طور پر سنگین خارجہ پالیسی کے نتائج‘ پیدا ہو سکتے ہیں، ان کی ملک بدری کے لیے درکار قانونی شرائط پوری کرتا ہے۔
جج کا کہنا تھا کہ حکومت نے ’واضح اور قائل کر والے شواہد کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ انہیں ملک سے نکالا جا سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امیگریشن عدالت میں سماعت کے بعد محمود خلیل کے وکیل، مارک وین ڈر ہاؤٹ، نے نیو جرسی کے ایک وفاقی جج کو بتایا کہ محمود خلیل چند ہفتے میں امیگریشن اپیلز بورڈ میں اپیل دائر کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ فوری طور پر کچھ ہونے والا نہیں۔‘
مقدمے کی سماعت کے اختتام پر جج سے مخاطب ہوتے ہوئے محمود خلیل نے یاد دلایا کہ قبل ازیں رواں ہفتے شروع ہونے والی سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ ’اس عدالت کے لیے اس سے زیادہ کچھ اہم نہیں کہ کسی کو اس کے قانونی حقوق اور بنیادی انصاف فراہم کیے جائیں۔‘
خلیل محمود نے مزید کہا کہ ’جو کچھ ہم نے آج دیکھا، اس میں نہ تو وہ اصول موجود تھے اور نہ ہی پورے عمل میں ایسا کچھ نظر آیا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے مجھے عدالت میں پیش ہونے کے لیے میرے خاندان سے ایک ہزار میل دور بھیجا۔‘
محمود خلیل، جو امریکہ میں قانونی طور پر مقیم ہیں، کو آٹھ مارچ کو وفاقی امیگریشن اہلکاروں نے ان کے یونیورسٹی کی ملکیت والے اپارٹمنٹ کی لابی سے گرفتار کیا۔
یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے تحت پہلی گرفتاری تھی جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ یہ کارروائی ان طلبہ کے خلاف کی جا رہی ہے جنہوں نے غزہ میں جارحیت کے خلاف یونیورسٹیوں میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لیا۔