چین کی سرحد پر واقع آخری گاؤں شمشال بلند ترین انسانی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ سطح سمندر سے 10 ہزار ایک سو فٹ بلند یہ گاؤں سو فیصد شرح خواندگی کا حامل ہے اور یہاں پر خدمت خلق کا ایک شاندار نظام ’نومس‘ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔
’نومس‘ یہاں کی مقامی وخی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب انسان کی باہمی دوستی ہے۔ مقامی لوگ نومس کے تحت مل کر کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر سڑک کھودنی ہو یا دیوار کھڑی کرنی ہو یا اسی طرح کا مشکل منصوبہ ہو تو سارے مرد مل کر حصہ لیتے ہیں۔
شمشال کے تقریباً سارے تعمیراتی کام اسی نومس کے جذبے کے تحت تعمیر کیے گئے ہیں، نہ کہ کسی سرکاری سرپرستی یا فنڈز کی مدد سے۔ چار چھوٹی چھوٹی آبادیوں پر مشتمل وادیِ شمشال کم ترین سرکاری سرپرستی کے بغیر ایک خوشحال معاشرے پر مشتمل ہے۔
گلگت سے خنجراب جاتے ہوئے پسو کے مقام پر ایک چھوٹی سی خستہ حال سٹرک دائیں جانب قراقرم ہائی وے سے نیچے اترتی ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں پسو کونز ہیں۔ بلند پہاڑیاں جن کی چوٹیاں نوکیلی ہیں، پسو کونز کہلاتی ہیں۔
ہمیں کریم آباد، ہنزہ سے پسو پہنچنے میں 35 منٹ لگے۔ ضلع ہنزہ کی تحصیل گوجال دریائے ہنزہ کے اطراف میں پھیلی وادی ہے، جہاں دریائے خنجراب، دریائے ہنزہ کی طغیانی بڑھاتا ہے، وہاں دریائے شمشال بھی اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پسو سے 56 کلومیٹر کا فاصلہ ہم نے بذریعہ جیپ تین گھنٹوں میں طے کیا۔ پسو سے شمشال تک سڑک اتنی تنگ ہے کہ کراسنگ آپ کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ کہیں گہری کھائیاں ہیں اور کہیں دریا سڑک کے قریب آ جاتا ہے۔ پہاڑ اپنی رنگت اور پتھروں کی اقسام بدلتا ہے۔
دریائے شمشال پر جھولتے پل ایک وقت میں ایک گاڑی کا وزن اٹھانے کے قابل ہیں اور ان پلوں کی تعداد سات ہے۔
پسو سے شمشال تک سنگلاخ پہاڑ ہیں اور صرف زیارت ہی وہ واحد جگہ ہے جہاں سبزہ ہے، مگر چھوٹی چھوٹی آبشاریں ہیں۔ سیاہ گلیشیئرز ایک حیران کن منظر پیش کرتے ہیں۔
سینکڑوں فٹ بلند یہ گلیشیئر ٹوٹ ٹوٹ کر دریائے شمشال کا حصہ بنتے ہیں تو برف کے ٹکڑے سلیٹی رنگ کے پانی میں تیرتے واضح نظر آتے ہیں۔ برف کے ذخیرے پر چڑھی مٹی نے سفید وجود کو سیاہ بنا دیا ہے۔
وادیِ شمشال اپنے سمیت چار دیہات امین آباد، خضر آباد اور فرمان آباد پر مشتمل ہے، مگر یہ چاروں گاؤں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
اپنی مدد آپ کا نظام نومس یہاں کے معاشرتی مسائل کا واحد حل ہے۔ نومس کے تحت لوگ اپنے پیاروں کی یاد میں یا ایصال ثواب کے لیے فلاحی منصوبے مکمل کرواتے ہیں۔ شمشال میں قائم سکول اور ہوسٹل بھی ایک جرمن خاتون ولما نے بنوایا تھا۔
ہماری موجودگی میں جرمن سیاحوں کی 10 سے 12 جیپیں وہاں پہنچی تھیں، جن میں سے کچھ شمشال پاس کی طرف ہائیکنگ کرنے چلے گئے۔
شمشال میں لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں اور گندم، سرسوں، باجرے جیسی فصلیں اگاتے ہیں۔ گاؤں کا ہر شخص تعلیم یافتہ ہے۔ یہ ایک ہی برادری کے لوگ ہیں جو شمالی پاکستان، افغانستان، چین اور تاجکستان تک پھیلے ہوئے ہیں، جن کا فرقہ اسماعیلی ہے۔
گاؤں کے ایک سوشل ورکر صفت کریم نے بتایا کہ یہاں پر آغا خان فاؤنڈیشن نے بہت سارے ترقیاتی کام کروائے ہیں۔ صاف پانی، صحت اور دیگر منصوبے آغا خان فاونڈیشن کی مدد سے مکمل ہوئے۔
شمشال میں چونکہ پاکستانی سیاح بہت کم آتے ہیں، اس لیے ہمارے ساتھ چھوٹے بچوں آیت زہرا اور حجاب کو دیکھ کر مقامی لوگ بہت حیران ہوئے۔
البتہ گاؤں میں ہیلی پیڈ اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ یہاں پر اہم لوگ بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔
جون کے آخری ہفتے میں صاف ستھرے لباس پہنے بچوں کو سکول جاتے ہوئے اور پھر کرکٹ کھیلتے دیکھا، بالکل ایسے ہی جیسے بڑے شہروں کے بچے تیار ہو کر سکول جاتے ہیں۔
دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون اور تیسری پاکستانی شخصیت ثمینہ بیگ کا تعلق بھی شمشال سے ہے۔ وہ 21 سال کی عمر میں یہ اعزاز حاصل کرنے والی کم عمر ترین مسلمان خاتون بھی ہیں۔ ثمینہ سات چوٹیوں کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی مسلمان خاتون بھی ہیں۔ معروف کوہ پیما رجب علی کا تعلق بھی شمشال سے ہے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی حدود کے تعین پر جب چین اور پاکستان کے مذاکرات ہوئے تو انہوں نے چین کو اس بات پر راضی کیا تھا کہ شمشال کے لوگوں کا روزگار مویشی پالنے سے جڑا ہے، اس لیے ان سے چراگاہیں نہ چھینی جائیں۔
چین نے اس بات سے اتفاق کیا اور یہ وسیع و عریض علاقہ پاکستان کی ملکیت تسلیم کر لیا گیا۔
سابق برطانوی وزیراعظم چرچل کی برطانوی فوجی تربیت کے بعد پہلی تعیناتی 1896 میں برطانوی انڈیا کے شمالی علاقہ جات میں ہوئی تھی۔ چرچل نے اپنی یادداشتیں تحریر کیں اور پھر بعد میں ’دی سٹوری آف مالا کنڈ فیلڈ فورس‘ کے نام سے کتابی شکل دی تو اس میں بیان کیا کہ ’پورے یورپ کے پہاڑی سلسلے ایلپس میں 6000 میٹر بلندی کی اتنی چوٹیاں نہیں جتنی صرف ہنزہ کے چھوٹے سے علاقے میں ہیں،‘ اور وہ علاقہ شمشال ہے جو پامیر تک پھیلا ہوا ہے۔ سفید اور سیاہ گلیشیئر بھی شمشال کی پہچان ہیں۔
سیاحت کے اس سرگرم موسم میں بھی شمشال میں صرف دو چار سرپھرے یا جرمن سیاح ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔