’جرابوں کی جنگ‘: کیا عمر کا اندازہ ’موزوں‘ سے لگایا جا سکتا ہے؟

عالمی سطح پر ایک حالیہ ٹک ٹاک ٹرینڈ کے مطابق کوئی شخص کیسی جرابیں پہنتا ہے، صرف یہی اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کے لیے کافی ہے، لیکن کیا اس ٹرینڈ کا پاکستانیوں پر بھی کوئی اثر ہوا ہے۔

اس ٹک ٹاک ٹرینڈ کے مطابق اگر آپ ایسے موزے پہنتے ہیں جو آپ کے ٹخنوں سے بھی نیچے ہیں تو آپ ملینیئلز نسل سے تعلق رکھتے ہیں (پکسا بے)

کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ لائنر یعنی چھوٹی جرابیں پہن کر بہت کُول (Cool) لگتے ہیں؟ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو شاید آپ غلط ہیں کیوں کہ حال ہی میں ٹک ٹاک پر وائرل ایک عالمی ٹرینڈ سے یہ پتہ چلا کہ اب چھوٹی جرابیں پہننے کا زمانہ پرانا ہوگیا ہے اور جنریشن زی سے تعلق رکھنے والے ایسے موزوں پر آپ کا مذاق اڑائیں گے۔

اس ٹک ٹاک ٹرینڈ کے مطابق کوئی شخص کیسی جرابیں پہنتا ہے، صرف یہی اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کے لیے کافی ہے۔

نئی اور پرانی نسل کی ’جرابوں کی جنگ‘ سے متعلق انٹرنیٹ پر مختلف ویڈیوز وائرل ہیں اور جنریشن زی یعنی 1997 کے بعد پیدا ہونے والے لوگ دوسروں کی جرابوں کو دیکھ کر ان کی عمر کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

اس نئے ٹرینڈ کے مطابق اگر آپ ایسے موزے پہنتے ہیں جو آپ کے ٹخنوں سے بھی نیچے ہیں تو آپ ماڈرن یا کول نہیں بلکہ ملینیئلز (Millennial) نسل سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی آپ ’پرانے زمانے کے شہری‘ ہیں اور اب خود کو بزرگ سمجھنا شروع کر دیں۔ یاد رہے کہ ملینیئلز وہ لوگ ہیں جو 1981 سے 1996 کے دوران پیدا ہوئے۔

اسی طرح وہ لوگ جو اس قسم کی جرابیں پہنتے ہیں جن سے ان کے ٹخنے نظر نہیں آتے یعنی لمبی جرابیں تو وہ ممکنہ طور پر جنریشن زی سے تعلق رکھتے ہیں اور اس نئے دور کے ’کول‘ لوگ ہیں۔

جنریشن زی وہ لوگ ہیں جو 1997 سے 2012 کے دوران پیدا ہوئے۔

یہ سب سن اور پڑھ کر پہلے تو مجھے حیرانی اور پھر پریشانی ہوئی کہ اب اس بڑھتی عمر کو کیسے چھپائیں؟ کیونکہ اگر ایسا ہے تو کیا اب ہمیں جرابیں بھی سوچ سمجھ کر پہننی پڑیں گی؟

دوسروں کو تو چھوڑیں، جب میں نے اپنی جرابوں پر غور کیا تو ان میں زیادہ تر ایسی ہیں، جنہیں پہن کر ٹخنے لازمی دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ انہیں پہن کر اپنے طور پر میں خود کو تھوڑا ’کول‘ سمجھتی ہوں اور اس طرح میں بھی ملینیئل کیٹیگری میں آئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن جب سکول کا زمانہ یاد کیا تو چھوٹی جرابوں کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا، جن میں سے ٹخنے دکھائی دیتے ہوں۔ ہماری والدہ ہمارے لیے چن چن کر ایسے موزے لاتی تھیں جو پورے نہ سہی لیکن آدھی ٹانگ ضرور چھپا دیتے تھے، تو کیا میں جنریشن زی سے ہوں؟ یہ سوچ کر خوشی تو ہوئی لیکن  ساتھ ہی جب میں نے اپنے بڑوں جن میں میرے والدین، چاچا چاچی اور دفتر کے کچھ ساتھی شامل تھے، کی جرابوں کی چوائس پر غور کیا تو سارے ہی ’جین زی‘ لگے، کیونکہ ہمارے بڑوں کو تو وہی جرابیں سمجھ آتی ہیں جو اچھی خاصی لمبی ہوں اور جن میں ٹخنے تو کیا شاید پوری ٹانگیں بھی چھپ جائیں۔

لیکن کیا یہ سٹائل سچ میں جنریشن زی کا ہی ہے؟

اس ٹرینڈ سے متعلق میں نے اپنے دفتر کے ساتھی حسنین جمال سے بات کی، جو ہر ٹرینڈ پر کافی گہری نظر رکھتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے اس ’جرابوں کی جنگ‘ کے ٹرینڈ کے بارے میں سن کر کہا: ’مجھے تو لگتا ہے کہ ہماری پاکستان اور انڈیا کی جنریشن زی نے موزوں کو زندگی سے نکال ہی دیا ہے، اب وہ لائنر پہنتے ہیں یعنی ایسے موزے جن میں نہ صرف ٹخنے نظر آتے ہیں بلکہ وہ جوتوں کے اندر ہی کہیں گم ہو جاتے ہیں۔‘

بقول حسنین: ’آپ دیکھ لیجے، سکن فٹ (جسم کے ساتھ چپکی ہوئی) جینز کے نیچے آپ نے سنیکرز پہننے ہیں تو ان کے ساتھ لمبے موزے ویسے بھی آف لگیں گے۔ دفتری کام میں سمارٹ فٹ والی پتلون کے نیچے بھی لوگ ٹخنوں تک کی لمبائی والے موزے پہنتے ہیں۔۔ ہمارے زمانے کے نارمل موزے صرف وہ بچے پہنتے ہیں، جنہیں فارمل ڈریسنگ کا شوق ہے، جو آکسفورڈ ٹائپ جوتے پہنتے ہیں یا پھر جن کے بوٹ اینکل ہائی ہوں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ سب قیاس بھی جین زی میں صرف ان کے لیے ہے جو تھوڑے وضع دار بچے ہیں۔ باقی آپ دیکھ لیجے کہ ہماری اماں کے زمانے میں خواتین میں سکن کلر کے جالی نما موزے ہوتے تھے، اب ان کا اب کوئی نام و نشان ہے؟ ختم! وہ بھی گئے ۔۔۔ تو اسی طرح لڑکوں میں بھی جوتے ہی ایسے چنے جاتے ہیں جن کے ساتھ موزوں کا تکلف نہ ہو، زیادہ مسئلہ ہوا تو ایک ہی بار واشنگ مشین میں ڈائریکٹ جوتے ڈال کے دھو لیں گے، موزے ان کے نزدیک نرا تکلف ہیں۔‘

نرے تکلف سے یاد آیا کہ میرا بھانجا جو اس وقت کینیڈا میں ہے اور جین زی کیٹیگری کا بچہ ہے، پچھلے سال گرمیوں میں پاکستان سے واپس جاتے ہوئے اپنا سارا سامان لے گیا لیکن ایک موزوں کا جوڑا اپنی نانی کے گھر بھول گیا۔ بس پھر کیا تھا، میں نے صرف لمبائی دیکھنے کے لیے بڑی محنت سے ان جرابوں کو ڈھونڈا تو وہ بھی ٹخنوں کو چھپانے میں ناکام ہی رہیں، تو مطلب پھر ہمارا بچہ اس ’جنگ‘ میں کہاں گیا؟ وہ تو پاکستانی بھی نہیں۔

میرے ایک ٹیچر نے بھی اس حوالے سے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں۔ آپ کسی دفتر کے ملازم ہیں تو اپنے سینیئرز اور جونیئرز کے پاؤں غور سے دیکھیں۔ کسی تعلیمی ادارے میں اساتذہ اور طلبہ کے جوتے دیکھیں۔ ایک بات تو آپ کو یکساں نظر آئے گی کہ جو افراد خود کو ذرا  پڑھا لکھا، سنجیدہ اور میچور سمجھتے ہیں، ان کی اکثریت اتنی ہی لمبائی کے موزے پہنے نظر آئے گی، جتنی لمبائی کے موزے آپ نے 80 یا 90 کی دہائی میں یا پھر اس کے بعد کے اگلے عشرے میں دیکھے۔ اس کے برعکس آدھے پاؤں کے موزوں میں صرف وہی پاؤں نظر آئیں گے جن کے مالک یا تو کسی کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم ہیں یا خود کو اسی نوجوان نسل میں شمار کرتے ہیں۔‘

حسنین جمال نے تو پاکستان میں جرابوں کو ’نرا تکلف‘ کہا لیکن دنیا بھر میں فیشن رن وے پر موزے بھی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ گوچی کے نئے تخلیقی ہدایت کار نے اس سال جنوری میں میلان فیشن ویک میں اپنے پہلے مینز ویئر شو کے لیے بلیک لوفرز کے نیچے سفید لمبی جرابوں کا استعمال کیا تھا۔ اسی طرح ایک اور شو میں خواتین ماڈلز نے رگبی کھلاڑیوں کی طرح گھٹنوں تک جرابیں پہن کر ریمپ پر واک کی۔

مائیکل جیکسن کی بلیک پینٹ کے نیچے سفید لمبی جرابوں کے فیشن ٹرینڈ کو دیکھیں یا لیڈی ڈیانا کے سٹائل کو یاد کریں، جن میں ڈھیلے ڈھالے سوئٹرز کے ساتھ ان کی لمبی خوبصورت سپورٹس جرابیں بھی ذہن میں آتی ہیں۔

تو اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ آج کل کے بچوں یعنی جین زی کے پاس اپنی کوئی چیز نہیں بلکہ وہ اس ٹرینڈ یا یوں کہوں کہ اُن جرابوں پر اِترا رہے ہیں، جو مجھ جیسے کئی ملینیئلز اپنے سکول میں پہن کر انہیں ’آؤٹ آف ٹرینڈ‘ کر چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ