وزیر اعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر پاکستان اور ہمسایہ ملک بھارت کے روایتی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا میں فطری طور پر غیر معمولی توجہ کا باعث بنی ہوئی ہے۔
حسبِ توقع بھارت میں ردعمل مکمل طور پر منفی رہا لیکن پاکستان میں تقریر کے مندرجات، اندازِ بیان اور افادیت پر وسیع اختلافِ رائے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ قدرتی طور پر یہ اختلافات پارٹی نظریات اور سیاسی وابستگی کے ساتھ منسلک ہیں اور غالباً یہی وجہ ہے کہ تقریر کے معروضی اور غیرجانبدار تجزیے شاذ و نادر ہی نظر آئے ہیں۔
تقریر کرنے والے کی عین مناسبت سے، اس پر تبصرے اور تجزیے بھی تیکھے، تند و تیز اور واضح طور پر سیاسی وابستگیوں کے آشکار ہیں۔ دونوں اطراف میں صرف ایک نقطہ پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ وزیر اعظم کی تقریر پرجوش اور ولولہ انگیز ہونے میں کوئی شک نہیں۔ بعد ازاں کی تشریحات قطعاً مختلف ہیں۔
پی ٹی آئی کے حامیوں نے تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ بقول ان کے، یہ اقوام متحدہ کے ایوانوں میں پاکستان کی طرف سے پیش کی جانے والی تقاریر میں سے اب تک کی بہترین تقریر تھی۔ شاندار، پرجوش، بصیرت انگیز، متاثر کن، اور منطقی جیسے الفاظ تقریر کی خوبیاں بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ وزیر اعظم مکمل طور پر تیار، انتہائی پر اعتماد اور جذباتی طور پر مستحکم تھے۔ انہیں حقائق اور اعداد و شمار پر مکمل عبور حاصل تھا وغیرہ وغیرہ!
حکومت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اور عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف بھارت کی ناپاک سازشوں کو بیک دست بےنقاب کیا ہے اور قوم کی امنگوں کی عکاسی کی ہے۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دہشت گردی سے بھرپور پس منظر اور آر ایس ایس کے نسلی اعتصاب اور ہندوتوا کے نظریہ کو کامیابی کے ساتھ بے نقاب کیا۔ وہ مغربی ذھن کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان سے انہی کی زبان میں بات کی۔ قصہ مختصر یہ کہ اقوام متحدہ میں اس سے بہتر خطاب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
ان جذبات سے بھرپور اور یکطرفہ مضامینِ خیال سے یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وزیر اعظم کے حامیوں میں سے کسی نے تقریر کے طویل مدتی اثرات کا نجیب الطرفین اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں۔ ذیل میں تقریر کی مختلف جہتوں اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے موقف پر اس کے ممکنہ مضمرات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نکتہ اوًل: اقوام متحدہ ایک مباحثہ کلب نہیں ہے جہاں مقررین کو تیز و تند زبان استعمال کرنے یا محاذ آرائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالمی سرد جنگ کے زمانہ میں اس طرح کے واقعات پیش آنے کے قصے موجود ہیں، لیکن ایسے انحرافات شاذ و نادر ہی رہےہیں۔ دنیائے سفارت کاری میں، جہاں الفاظ اور لہجے کے استعمال میں از حد احتیاط کی ضرورت ہے، ایسی سنسنی خیز اور جذباتی تقاریر عارضی طور پر تو ہیجان پیدا کرسکتی ہیں، لیکن ان سے کسی پائیدار اثر کی توقع رکھنا بے جا ہو گا۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں عالمی رہنما موجود ہوں، بہتر ہے کہ اپنا نقطہ نظر ناپ تول کر، پختگیِ نظر اور مدلل طریقے سے پیش کیا جائے۔ نعروں اور دھمکیوں سے مبرا بیانیہ یقیناً موثر ہو گا۔ یہ ایک قدیم کہاوت ہے کہ با اثر شخص کی سرگوشی بے اثر کی دھاک سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ یہ دلیل کی طاقت ہے نہ کہ صدا کی گونج جو بیانئیے کو کامیاب بناتی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ وزیر اعظم ایک اعلیٰ ترین سفارتی فورم سے خطاب کر رہے تھے۔
نکتہِ دوم: وزیر اعظم کو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کی اندرونی سیاسی بدعتیں، مثلاً بدعنوانی و رشوت ستانی وغیرہ کو موضوع بنانے سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ اس سے ملک دشمنوں کو پاکستان کو بدعنوانی کا گڑھ قرار دے کر، ملک میں سرمایہ کاری کے خلاف مہم شروع کرنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف بھی بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ یہ اندرونی مسئلہ ہے اور اس پر درونِ خانہ ہی توجہ دی جانی چاہئے۔
نکتہِ سوم: وزیر اعظم کو اپنی ایک اور من پسند عادت، اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی علت سے بچاو کی بھی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب کے دوران بار بار یہ اعلان کیا کہ ’میں مغربی ذہن کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔‘ اس قسم کے بیانات عموماً سامعین میں کوئی خوشگوار اثر نہیں چھوڑتے۔
نکتہِ چہارم: ایک طرف تو وزیر اعظم نے دنیا کو بتایا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کرفیو اٹھنے پر ’خون کی ہولی‘ کھیلی جائے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے کرفیو اٹھانے کا مطالبہ بھی کیا۔ اس طرح کی دلیلیں استعمال کر کے، بھارت کرفیو اٹھانے سے انکار کرسکتا ہے اور نتیجے میں کشمیری عوام کی زندگیاں مزید تلخ کر سکتا ہے۔ مزید براں، بھارت پاکستان پر کشمیریوں کو دہشت گردی پر اکسانے کے نئے الزامات بھی لگا سکتا ہے۔
نکتہِ پنجم: وزیر اعظم کے بھارت اور پاکستان کے مابین جنگ کی صورت میں جوہری ہتھیاروں کی ممکنہ شمولیت کے تذکرے کو ایک اسٹریٹجک غلطی کہنا نامناسب نہ ہو گا۔ اس طرح کا بلواسطہ اشارہ بھی ایک ذمہ دار جوہری ریاست کی حیثیت سے پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ہمارے ارد گرد ایسی قوتیں موجود ہیں جو پاکستان کے جوہری پروگرام ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ایسے دشمنوں کو بلاوجہ جواز کیوں فراہم کریں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر اعظم کی تقریر، بھارتی پالیسی یا عالمی طاقتوں کی سوچ میں کوئی مثبت تبدیلی لانے کا سبب بنے گی؟ اس سوال کا جواب ایک سادہ سی نفی میں ہے۔ پانچ اگست کے بھارتی اقدام کے بعد، پاکستان نے بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر کشمیری عوام کی حالت زار پر عالمی شعور بیدار کرنے کے لیے کافی کوششیں کیں ہیں لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔
مستقبل قریب میں ہندوستان زیادہ سے زیادہ چند سطحی تبدیلیاں لاسکتا ہے لیکن اقوام متحدہ کے کسی کردار یا ثالثی کی کسی پیش کش کو قبول کرنے کا امکان نہیں ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان کی طرف سے ایک ایسی ہی تقریر کی توقع کر رہی تھی۔ بھارتی وزیر اعظم کا اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کو یکسر نظر انداز کر دینا اس پہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بھارت کی جوابی تقریر سے یہ واضع ہو گیا ہے کہ وہ عمران خان کی تقریر کو ایک وقتی ابال کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں اپنی جوابی تقریر میں بھارتی مندوب نے عمران خان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے ذکر کو دھمکی قرار دیا۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان کی طرف سے پاکستان کو دی جانے والی تمام دھمکیوں کو آسانی سے پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
عام طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں وزیر اعظم کی تقریر کو مقامی میڈیا میں خوب اجاگر کیا جاتا ہے جس سے سفارتی کامیابی کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس سے قطع نظر، عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے ملک کے حق میں ایک مضبوط کیس پیش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ آیا اس سے پاکستان کے مستقبل کا راستہ واضح ہوا ہے، کسی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا۔
اصل چیلنچ کشمیر کے لیے ایک پائیدار حکمت عملی تشکیل دینا ہے۔ امریکہ یا نام نہاد امت سے یہ توقع کرنا کہ تنازعہ کشمیر سے متعلق کوئی خاطر خواہ اقدام اٹھائیں گے ایک امیدِ عبث ہوگی۔ پاکستان کا اصل چیلنج اندرونی مسائل ہیں جن میں اہم ترین معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ وزیر اعظم کو کابینہ کا سائز کو کم کر کے ایسے وزرا کو لانا ہو گا جو دور اندیش اور ذہین ہوں، جنہیں ملک کے مسائل کا صحیح ادراک ہو اور جو درست اور قابلِ عمل مشورے دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ملک میں صرف ایک سال میں بے انتہا قرضے لیے جا چکے ہیں جو استعمال تو ہوچکے ہیں لیکن ان کی ادائیگی کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس مخدوش صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک موثر حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔