لوگوں کو مرضی کے بینچ کی عادت ہے، وہ زمانے چلے گئے: چیف جسٹس

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت میں پی ٹی آئی کے وکیل نے چیف جسٹس سے دھمکی آمیز رویے میں گفتگو کی جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اظہار برہمی کیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 18 ستمبر 2023 کو اپنے پہلے مقدمے کی ٹیلی ویژن پر لائیو نشر ہونے والی کارروائی کے دوران (پی ٹی وی سکرین گریب/فائل)

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بدھ کو آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل پر اظہار برہمی  کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں۔‘

بدھ کے روز آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے خلاف نظرثانی درخواست پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔

سماعت کے آغاز میں تفصیلی فیصلے سے متعلق رجسٹرار نے رپورٹ عدالت میں پیش کی جس کے مطابق تفصیلی فیصلہ 14 اکتوبر 2022 کو جاری ہوا تھا۔

آج دوران سماعت پی ٹی آئی کے وکیل نے چیف جسٹس سے دھمکی آمیز رویے میں گفتگو کی جس پر چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل کو مخاطب کر کے کہا کہ ’آپ ہمیں باتیں سناتے ہیں تو پھر سنیں بھی، ہم پاکستان بنانے والوں میں سے ہیں، توڑنے والوں میں سے نہیں، ہم نے وہ مقدمات بھی سنے جو کوئی سننا نہیں چاہتا تھا، پرویز مشرف کا کیس بھی ہم نے سنا۔‘

اس دوران بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے استدعا کی کہ ’مجھے اپنے موکل سے ملاقات کی اجازت دی جائے، تاکہ میں قانونی نکات پر رہنمائی لے سکوں۔‘ عدالت نے وکیل علی ظفر کی استدعا منظور کرتے ہوئے عمران خان سے فوری ملاقات کرانے کے احکامات جاری کر دیے اور کہا کہ ’کوشش کریں کہ آج رات تک ملاقات ہو جائے۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’فل کورٹ سے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لوگوں کو یہاں مرضی کے بینچ کی عادت ہے، وہ زمانے چلے گئے، اب شفافیت آ چکی ہے، اب آمریت نہ ملک میں نہ ہی اداروں میں ہو گی۔‘

اس کے بعد صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ ’آپ کے تو دلائل مکمل ہو گئے تھے۔‘

شہزاد شوکت نے کہا کہ ’تفصیلی فیصلے کے انتظار میں نظرثانی دائر کرنے میں تاخیر ہوئی۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے:’عام بندے کا کیس ہوتا تو بات اور تھی، کیا سپریم کورٹ بار کو بھی پتہ نہیں تھا نظرثانی کتنی مدت میں دائر ہوتی ہے۔‘

عدالت نے کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔

’باہر پانچ سو وکیل کھڑے ہیں‘

دوران سماعت پی ٹی آئی سے وابستہ وکیل مصطفین کاظمی روسٹرم پر آ گئے۔ وکیل سید مصطفین کاظمی نے چیف جسٹس کو دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ ’باہر پانچ سو وکیل کھڑے ہیں ہم دیکھتے ہیں آپ ہمارے خلاف کیسے فیصلہ کرتے ہیں۔ میرا تعلق پی ٹی آئی سے ہے، آپ نے غیر قانونی بینچ بنایا ہوا ہے، آپ کے بینچ میں نعیم اختر افغان اور ایک اور جج غیر قانونی بیٹھے ہیں۔‘ 

مصطفین کاظمی کے اس رویے پر چیف جسٹس نے پولیس کو بلایا اور انہیں کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد ازاں چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مصطفین کاظمی کے رویے کی شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ ’سر، میں ان کے رویے کا ذمہ دار نہیں۔‘

اس پہ چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ ذمے دار ہیں کیونکہ ان کا تعلق آپ کی جماعت سے ہے یہ کس طرح کا پاکستان بنا رہے ہیں؟ تباہ کر دیں سب اداروں کو؟ آج یوٹیوبرز کو مصالحہ مل گیا ہے۔ اب یہ کیا ہو رہا ہے؟ آپ آئیں اور ہمیں بے عزت کریں؟ ہم یہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔‘

اس کے بعد بیرسٹر علی ظفر مصطفین کاظمی کے رویے پر معذرت کر لی۔

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

وکیل علی ظفر نے عدالت سے کہا کہ ’ مجھے دلائل دینے کے لیے وقت درکار ہے، مجھے عمران خان سے کیس پر مشاورت کرنی ہے، آپ نے کہا تھا آئینی معاملہ ہے، بانی پی ٹی آئی سابق وزیراعظم ہیں، درخواست گزار بھی ہیں، آئین کی سمجھ بوجھ بھی ہے، بانی پی ٹی آئی کو معلوم ہے کہا کہنا ہے کیا نہیں، مجھے اجازت دیں کہ ان سے معاملے پر مشاورت کرلوں۔‘

بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ اس کیس میں فریقین کو نوٹس جاری کرنا ضروری تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم نے کل کہا تھا جو بھی آ کر دلائل دینا چاہیے دے۔‘ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’یہ طریقہ کار درست نہیں ہے بینچ بھی قانونی نہیں، بینچ ترمیمی آرڈیننس کے مطابق بھی درست نہیں۔ مجھے اپنے طریقے سے دلائل دینے دیں نہیں تو میں چلا جاتا ہوں، سپریم کورٹ طے کر چکی ہے کہ نظر ثانی کی مدت مختصر فیصلہ آنے کے بعد شروع ہو جاتی ہے۔‘ 

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا نظر ثانی کو جلد سنا جانا ضروری نہیں ہوتا؟ کیا ضرورت ہوتی ہے کہ چیف جسٹس اور ان کے ججز کے ریٹائر ہونے تک نظر ثانی کیس نہ لگائیں، اس وقت وہی جج فوری نظر ثانی لگا کر سن لیتے۔‘

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’اپنے دلائل شروع کرنے سے پہلے ایک مسئلے کی نشاندہی کر دوں، ترمیمی آرڈیننس کہتا ہے ہر سماعت کو ریکارڈ کیا جائے گا، ٹرانسکرپٹ دستیاب ہو گا۔

’اگر میرے دلائل ریکارڈ کیے جائیں تو ہی آگے بڑھوں گا، دلائل ریکارڈ ہوں گے ٹرانسکرپٹ دستیاب ہو گا۔ میں نے ایک درخواست دائر کی جو سپریم کورٹ کا آفس ریکارڈ پر نہیں رکھ رہا۔ کل بھی کہا تھا آج بھی کہتا ہوں اپنے موکل بانی پی ٹی آئی سے ملنا چاہتا ہوں۔‘

علی ظفر نے مزید کہا کہ ’جو چار رکنی بینچ 30 ستمبر کو بیٹھا وہ بینچ کسی نے تشکیل دیا ہی نہیں تھا۔‘ 

چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ ’علی ظفر صاحب آپ ججز کا انتخاب خود نہیں کر سکتے، ایسا طرز عمل تباہ کن ہے، کیا ماضی میں یہاں سینیارٹی پر بینچ بنتے رہے؟ آپ نے بار کی جانب سے کبھی شفافیت کی کوشش کیوں نہ کی؟ 63 اے پر آپ کا ریفرنس آیا، فوری سنا گیا۔ اُس وقت 10 سال پرانا بھٹو ریفرنس زیر التوا تھا۔ بابر اعوان دونوں ریفرنسز میں بطور وکیل پیش ہوئے۔ شفافیت کا تقاضہ تھا بابر اعوان پہلے دن کہتے پہلے پرانا ریفرنس سنیں۔‘ 

علی ظفر نے کہا کہ ’پہلے یہ فیصلہ کریں کہ بینچ درست طور پر تشکیل ہوا ہے کہ نہیں؟‘

ساتھی ججوں کے ساتھ مشاورت کے بعد چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’بینچ درست طور پر تشکیل ہوا ہے۔‘

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا فیصلہ دو برس قبل مئی 2022 میں اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے دیا تھا۔

وہ فیصلہ تین دو کی نسبت سے آیا تھا۔ بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم، اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کرنے اور اس کی نااہلی کا فیصلہ دیا تھا۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اکثریتی فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان