اتفاقات زمانہ دیکھیے، جس اصول کی زد میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر آئے ہیں، یہ اصول یہی دونوں جج چند ماہ پہلے لاہور ہائی کورٹ میں لاگو کر چکے ہیں۔
بطور رکن جوڈیشل کمیشن ان دونوں جج صاحبان نے ہائی کورٹ کے دو سینیئر ترین ججوں کو نظر انداز کرتے ہوئے تیسرے نمبر پر موجود جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس بنانے کی سفارش کی تھی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ اگرچہ مجھے یہ اختیار ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے میں کوئی نام تجویز کروں لیکن میں ایسا نہیں کرتا، میں تین نام کمیشن کے سامنے رکھتا ہوں، کمیشن ان میں سے فیصلہ کر لے اور کمیشن نے میرٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس صاحبہ کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
اگر لاہور ہائی کورٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس کو چیف جسٹس بنایا جا سکتا ہے تو سپریم کورٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس کو چیف جسٹس کیوں نہیں بنایا جا سکتا؟
جو چیز لاہور ہائی کورٹ کی حد تک بغیر کسی آئینی نکتے کے جائز سمجھی گئی وہی چیز سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل کی روشنی میں ہو رہی ہے تو یہ ناجائز کیسے ہو گئی؟
سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس نہ بنانے پر بعض وکلا آگ بگولا ہوئے پھرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ایسا ہی کام جب ملک کے سب سے بڑے صوبے کی عدالت میں ہوا تو وہ کیوں خاموش رہے؟
سینیارٹی کے جس اصول کی بنیاد پر رجز پڑھے جا رہے ہیں، یہ اصول اس وقت کیوں نہیں یاد آتا جب ہائی کورٹ سے ججوں کو سپریم کورٹ لایا جا رہا ہوتا تھا؟ کیا اس سے مختلف چیمبروں کے مفادات باہمی پر ضرب پڑتی تھی؟
جسٹس منیب اختر صاحب کو جب سپریم کورٹ لایا گیا تو سندھ ہائی کورٹ میں ان سے سینیئر تین جج موجود تھے۔ اگر محض سینیارٹی ہی معیار ہے تو کیا کوئی رہنمائی فرمائے گا کہ ان تین ججوں کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟
جسٹس منیب صاحب کو سپریم کورٹ کا جسٹس بنانے پر نہ صرف سندھ بار کونسل کو اعتراض تھا بلکہ سندھ ہائی کورٹ کے بعض ججز بھی معترض تھے۔ کیا یہ تعیناتی الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی خلاف ورزی نہ تھی؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ جسٹس عائشہ ملک لاہور ہائی کورٹ میں سینیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر تھیں مگر ان سے سینیئر تین ججوں کو بائی پاس کر کے انہیں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا؟
کیا جسٹس شاہد وحید، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی کو بھی جونیئر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں نہیں لایا گیا؟
کیا حسین اتفاق ہے کہ دو بار وضاحتی نوٹ جاری کرنے والی آٹھ رکنی بینچ کے پانچ جج ایسے ہیں جنہیں جونیئر ہونے کے باوجود سپریم کورٹ لایا گیا اور سینیئرز کو نظر اندازکر دیا گیا۔ اتفاق ہے یا حسن اتفاق یا پھر کوئی اہتمام ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ بھی ہوتا رہا کہ ہائی کورٹ سے جونیئر جج کو سپریم کورٹ لایا گیا اور پھر بعد میں نظر انداز ہونے والے سینیئر کو بھی سپریم کورٹ میں لایا گیا۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا کہ جسے پہلے نظر انداز کر دیا اب کیوں اسے لا رہے ہو۔ اور اب اسے سپریم کورٹ لا رہے ہو تو پہلے نظر انداز کیوں کیا تھا؟
عام لوگ نہ جانتے ہوں گے لیکن جاننے والے تو جانتے ہیں کہ اس کا مقصد کیا تھا۔ مرضی کے جج اوپر لا کر اور جونیئر کو سینیئر بنا کر ایک پوری فیلڈ سیٹ کی جاتی تھی۔
پارلیمان نے کوئی نئی بات نہیں کی، پارلیمان نے اسی اصول کو لاگو کیا جو پہلے ہی مختلف سطح پر رائج رہا۔ پارلیمان نے اگر آئین میں ترمیم کر دی ہے کہ محض حادثہ پیدائش ہی کو اہلیت کا واحد پیمانہ قرار نہیں دیا جا سکتا تو اس میں کیا غلط ہے؟
کسی یونیورسٹی کو اپنے قانون کے کسی طالب علم سے اس بات پر ریسرچ کروانی چاہیے کہ کس کس چیمبر کے کتنے لوگ یہاں جج بنے، کس کس خاندان میں سسر سے داماد تک چیف جسٹس بنے، کس کس خاندان میں والد گرامی اور صاحب زادہ صاحب جج بنے اور کن خوبیوں کی بنیاد پر بنے۔
اب جناب حامد خان نے وکلا تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ انہوں نے کس حیثیت سے کیا اور کس بنیاد پر کیا؟
حامد خان وکلا برادری کے بہترین اور شاندار آدمیوں میں سرفہرست ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے وکلا تحریک کا اعلان کس حیثیت سے کیا؟
کیا وہ وکلا کی کسی بھی تنظیم کے منتخب عہدے دار ہیں؟
کیا ان کے پاس کوئی ایسا عہدہ ہے جو انہیں یہ اختیار دیتا ہو کہ وہ وکلا کے حوالے سے کوئی فیصلہ کر سکیں؟
کیا وہ سپریم کورٹ بار یا کسی ہائی کورٹ بار کے صدر ہیں، کیا وہ پاکستان بار کونسل یا کسی بھی صوبائی بار کونسل کے کسی بھی عہدے پر فائز ہیں؟
وہ یہ اعلان آخر کس حیثیت سے کر رہے ہیں؟
وکلا ہر سال اپنی قیادت اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں۔ ایسا کوئی فیصلہ کرنا بھی ہو تو اس کی مجاز صرف منتخب قیادت ہے۔ وکلا کا کوئی خان یا سردار یا نواب نہیں ہوتا۔ وکلا کسی کی رعیت یا مزارعین بھی نہیں۔ کوئی غیر منتخب فرد واحد وکلا تحریک چلانے کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے؟ اس کے پاس کیا مینڈیٹ ہے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔