آکسفورڈ یونیورسٹی کی چانسلرشپ کے لیے عمران خان کے میدان میں اترنے کے فیصلے نے چند اہم قانونی سوالات کو جنم دیا ہے۔ ان پر غور کیے بغیر اس معاملے پر ہونے والی ساری بحث ادھوری رہے گی۔
پہلا سوال یہ کہ آکسفورڈ کی چانسلرشپ کے الیکشن میں حصہ لینے کی بنیادی اہلیت کیا ہے اور کیا عمران خان اس معیار پر پورا اترتے ہیں؟
آکسفورڈ کے رجسٹرار نے اس باب میں تین شرائط کا ذکر کیا ہے جن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرط اصل میں ایک ہی ہے، وہ یہ کہ الیکشن میں حصہ لینے والا شخص اپنے شعبے میں غیر معمولی کامیابی سمیٹ چکا ہو اور اس کی توقیر کا دائرہ کار اس سے بنیادی شعبے تک محدود نہ ہو بلکہ اس سے باہر تک پھیلا ہو۔
اس پہلی شرط کا معاملہ بڑا دلچسپ ہے۔ عمران خان نے بےشک اپنے بنیادی شعبے (کرکٹ) میں غیر معمولی کامیابی سمیٹی اور نام کمایا، لیکن اس شرط کا دوسرا حصہ بھی کیا پورا ہو رہا ہے؟ یعنی کیا ان کی عزت اور نیک نامی کا دائرہ اس کھیل سے باہر کی دنیا تک پھیلا ہے؟
شہرت کی حد تک تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے لیکن عزت اور نیک نامی؟ جس معاشرے میں وہ سیاست کر رہے ہیں اور جہاں انہوں نے اقتدار کی ایک مدت گزاری وہاں وہ ایک متنا زع سیاسی کردار ہیں۔ اتنے کہ ان کی ذات کی تعریف و تنقید کی بنیاد پر معاشرہ پولرائز ہو چکا ہے۔ یہ کہنا شاید ممکن نہ ہو کہ وہ پہلی شرط کے دوسرے حصے پر پورا اترتے ہیں۔
باقی دونوں شرائط اقوال زریں ہیں اور ان کی بنیاد پر اہلیت یا نااہلی کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ وہ رسمی سے جملے ہیں۔ یعنی وہ یونیورسٹی کے علمی تحقیقی کام کا قدر دان ہو اور اسے دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی بنائے رکھنے میں پر عزم ہو، اور اس کی نیک نامی میں اضافے کے لیے یکسو ہو، وغیرہ وغیرہ۔ تاہم آکسفورڈ کونسل کی جانب سے جاری ہونے والے ضابطے کی شق نمبر آٹھ نے ان اقوال زریں کو بھی اہم قانونی نکتے میں بدل دیا ہے۔
کونسل نے 26 جون، 2002 کو جو ضابطہ طے کیا اس میں ضابطہ نمبر آٹھ کی شق سات میں بتایا گیا ہے کہ چانسلر کون کون سے کام نہیں کر سکتا۔ مثلا وہ آکسفورڈ میں بطور طالب علم داخلہ نہیں لے سکتا اور وہاں ملازمت نہیں کر سکتا۔
ساتھ ہی ایک اور شرط بھی عائد کی گئی ہے جو قابل غور ہے۔ کہا گیا ہے کہ چانسلر کسی بھی مجلس قانون ساز کا رکن نہیں ہو سکتا، وہ اس کے انتخاب میں امیدوار بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ شرط عمومی ہے اور اس کا تعلق آکسفورڈ کے کسی ذیلی ادارے سے نہیں۔ یعنی کوئی بھی چانسلر نہ کسی ملک کی پارلیمان کا رکن ہو سکتا ہے نہ اس کا الیکشن لڑ سکتا ہے۔
مستعفی چانسلر کے عہدے کی مدت تاحیات تھی۔ اب مگر اس میں ترمیم ہو چکی اور اس کا دورانیہ 10 سال ہے۔ تو کیا عمران خان یہ طے کر چکے ہیں کہ جیت جانے کی صورت میں وہ 10 سال تک پاکستان کی انتخابی سیاست سے دست بردار ہو جائیں گے؟
عمران خان کی بنیادی ترجیح کیا ہے؟ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کو عزت و شہرت کی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے چانسلر بننا چاہتے ہیں یا وہ اس چانسلر شپ کو اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں؟ مفادات کا بظاہر ٹکراؤ ’اقوال زریں‘ پر مشتمل ان دونوں شرائط کی معنویت میں غیر معمولی اضافہ کر دیتا ہے۔
اگر وہ جیت جاتے ہیں اور پھر 10 سال کے لیے پاکستان کی انتخابی سیاست سے دور ہو جاتے ہیں تو پھر تو وہ واقعتاً آکسفورڈ یونیورسٹی سے مخلص ہیں اور اس کی بہتری کی خاطر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کا اپنا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔ لیکن ظاہر ہے یہ ممکن نہیں کہ وہ پاکستانی سیاست سے یوں کنارہ کش ہو جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری صورت یہ ہے وہ جیتنے کے بعد، کسی وقت پر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے چانسلر شپ سے مستعفی ہو جاتے ہیں تو یہ آکسفورڈ کو بازیچہ اطفال بنانے والی بات ہو گی۔ معلوم نہیں یہ نکتہ آکسفورڈ میں ان کے حریفوں نے اٹھایا ہے یا نہیں لیکن یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے۔
مفاد کے ممکنہ ٹکراؤ کی صورت میں عام سے ادارے بھی ہوں تو وہ وابستگی کی ضمانت مانگتے ہیں۔ معلوم نہیں آکسفورڈ کے ہاں ایسی کوئی روایت ہے یا نہیں۔
آکسفورڈ کے ساتھ ساتھ یہ سوال عمران خان صاحب سے ان کے مداح بھی پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کے مستقبل کے ارادے کیا ہیں؟ کیا آپ پاکستانی سیاست سے لاتعلق ہونے کا سوچ رہے ہیں؟َ ہمیں انکل بنا رہے ہیں یا آکسفورڈ والوں کو؟ (یاد رہے کہ انکل کو اردو میں ماموں کہا جاتا ہے)۔
تو کیا ان کے خیال میں آکسفورڈ کی چانسلر شپ سے ان کا قد کاٹھ اتنا بڑا ہو جائے گا کہ انہیں جیل میں رکھنا اور ان پر مقدمات چلانا ممکن نہیں رہے گا یا یہ کہ انہیں جیل سے نکال دیا جائے گا؟
اس کا جواب بھی نفی میں ہے کیونکہ آکسفورڈ ریاست نہیں، ایک تعلیمی ادارہ ہے اور اس کو کسی بھی درجے میں کوئی سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں۔
پاکستان کا سابق وزیر اعظم آکسفورڈ کی چانسلر شپ کا امیدوار کیوں ہے؟ کیا یہ اس کی سیاسی ضرورت ہے یا یہ لاشعور میں اترا نو آبادیاتی آسیب ہے کہ نو آبادیاتی آقاؤں کی جتنی نسبتیں آدمی کے ساتھ جڑتی جائیں گی وہ اتنا ہی جنٹل مین بنتا جائے گا؟
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ٰ