امریکہ: عدالت نے زیر حراست ترک طالبہ کی ملک بدری روک دی

امریکی محکمہ داخلہ ( ڈی ایچ ایس) نے رومیسہ اوزترک پر بغیر کسی ثبوت کے ’حماس کی حمایت میں سرگرمیاں انجام دینے‘ کا الزام لگایا ہے۔

27 مارچ 2025 اس تصویر میں میساچوسٹس میں پھول اور رومیسہ اوزترک کی حمایت میں پوسٹر چسپاں ہے، جنہیں امریکی امیگریشن حکام نے اسی مقام سے حراست میں لیا تھا (اے ایف پی/ سکاٹ آئیسن)

امریکہ کی ریاست میساچوسٹس کے ایک وفاقی جج نے جمعے کو حکم دیا کہ ٹفٹس یونیورسٹی کی ایک ترک نژاد پی ایچ ڈی طالبہ رومیسہ اوزترک کو فی الحال ملک بدر نہ کیا جائے۔

جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے تصدیق کی تھی کہ ٹفٹس یونیورسٹی کی ترک طالبہ رومیسہ اوزترک کا ویزا منسوخ کردیا گیا ہے۔ 30 سالہ طالبہ نے مبینہ طور پر غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت کی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق رومیسہ اوزترک کو امریکی امیگریشن حکام نے رواں ہفتے میساچوسٹس میں کے گھر کے قریب سے حراست میں لیا تھا۔

ان کی گرفتاری کی ایک ویڈیو، جس میں نقاب پوش وفاقی ایجنٹس نظر آ رہے تھے، وائرل ہوگئی تھی، جس کے بعد امریکی حکام نے ان کا ویزا منسوخ کر دیا تھا۔

امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ، میساچوسٹس کے جمعے کے حکم نامے میں کہا گیا: ’عدالت کو اپنے دائرہ اختیار کے فیصلے کے لیے وقت دینے کی غرض سے، اوزترک کو تاحکم ثانی امریکہ سے نہ نکالا جائے۔‘

امریکی محکمہ داخلہ (ڈی ایچ ایس) نے اوزترک پر بغیر کسی ثبوت کے ’حماس کی حمایت میں سرگرمیاں انجام دینے‘ کا الزام لگایا ہے۔

محکمہ داخلہ نے اس عدالتی فیصلے پر فوری کوئی تبصرہ نہیں کیا، لیکن ترک طالبہ کے وکلا نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

اوزترک فل برائٹ سکالر اور ٹفٹس یونیورسٹی کے ’چائلڈ سٹڈی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ‘ پروگرام میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ وہ امریکہ میں ایف ون سٹوڈنٹ ویزا پر تھیں۔

ایک سال قبل، انہوں نے ایک مشترکہ مضمون تحریر کیا تھا جس میں ٹفٹس یونیورسٹی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ان کمپنیوں سے سرمایہ نکالے جن کے اسرائیل سے تعلقات ہیں اور یہ کہ ’فلسطینی نسل کشی کو تسلیم کرے۔‘

ان کے وکلا نے ان کی حراست کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کے حامی غیر ملکی مظاہرین کو ملک بدر کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ان پر حماس کی حمایت، یہود مخالف ہونے اور امریکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ بننے کے الزامات لگائے ہیں۔

مظاہرین، جن میں بعض یہودی گروہ بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسرائیل کے حملے پر ان کی تنقید اور فلسطینی حقوق کے لیے ان کی وکالت کو غلط طور پر یہود دشمنی اور حماس کی حمایت کے مترادف قرار دے رہی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے متعدد طلبہ اور مظاہرین کے ویزے منسوخ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر 300 سے زیادہ ویزے منسوخ کر چکی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے الابامہ یونیورسٹی کے ایرانی طالب علم کو حراست میں لینے اور ویزا منسوخ کرنے کی بھی تصدیق کی ہے، تاہم ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ کیمپس میں مظاہروں میں شریک نہیں تھے۔

اس لہر کا آغاز کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ محمود خلیل کی ملک بدری کے حکم نامے سے ہوا۔

محمود خلیل شام میں ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے اور 2022 میں طالب علم ویزے پر امریکہ آئے۔ گذشتہ سال انہیں مستقل رہائشی (گرین کارڈ ہولڈر) کا درجہ ملا تھا۔

وہ کولمبیا یونیورسٹی میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف احتجاجی تحریک میں نمایاں رہے۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Independent Urdu (@indyurdu)

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر الزام عائد کیا تھا کہ محمود خلیل حماس کی حمایت کرتے ہیں، تاہم ان پر کسی جرم کا الزام عائد نہیں کیا گیا اور حکومت نے اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

آٹھ مارچ کو ان کی گرفتاری پر امریکہ کے مختلف شہروں بشمول نیویارک میں احتجاج ہوا اور سینکڑوں لوگوں نے ٹائمز سکوائر پر جمع ہو کر ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

کولمبیا یونیورسٹی کی عبوری صدر مستعفی

دوسری جانب کولمبیا یونیورسٹی کی عبوری صدر کترینا آرمسٹرانگ نے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ دوبارہ نیویارک میں قائم یونیورسٹی کے میڈیکل سینٹر میں اپنی سابقہ ذمہ داری سنبھالیں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب یونیورسٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے مطالبے پر متعدد پالیسی تبدیلیاں قبول کیں تاکہ 40 کروڑ ڈالر کی سرکاری فنڈنگ بحال ہو سکے۔

جمعے کو کولمبیا یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں آرمسٹرانگ نے کہا کہ وہ یونیورسٹی کی قیادت کرنے پر فخر محسوس کرتی ہیں، خاص طور پر ایک ’اہم اور مسائل والے وقت‘ میں۔

آرمسٹرانگ نے یہ ذمہ داری اگست میں سنبھالی تھی جب پچھلی صدر منوش شفیق نے اسرائیل-حماس تنازعے پر احتجاج اور کیمپس میں تقسیم کے معاملات سے نمٹنے  پر تنقید کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔

یونیورسٹی کے ٹرسٹیز نے اپنی بورڈ کی شریک صدر، کلیئر شپ مین، کو قائم مقام صدر مقرر کیا ہے جب تک کہ مستقل صدر کی تلاش مکمل نہ ہو جائے۔

آرمسٹرانگ نے یونیورسٹی کی تاریخ کے سب سے نازک مہینوں میں سے ایک میں اس کی قیادت کی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے یونیورسٹی اور اس کے ہسپتال سے تحقیقی فنڈنگ اس بنیاد پر واپس لینے کے اقدام کہ اس نے یہودی مخالف جذبات کے خلاف مناسب اقدامات نہیں کیے یا فلسطین کے حامی مظاہروں میں شریک طلبہ کو سزا نہیں دی، کو کئی حلقوں میں یونیورسٹی کے وجود کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس