چینی ڈیپ سیک بمقابلہ امریکی چیٹ جی پی ٹی: بہتر کون؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چیٹ جی پی ٹی کو ٹکر دینے والی چینی کمپنی کی اچانک آمد کو امریکہ کے لیے الارم کی گھنٹی قرار دے دیا۔

ایک چینی کمپنی ڈیپ سیک کی مصنوعی ذہانت کی ایپ نے دنیا بھر کی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں کھلبلی مچا دی ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے امریکہ کے لیے ’الارم کی گھنٹی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مسابقت کے لیے زبردست توجہ کی ضرورت ہے۔

ایک ٹیکنالوجی ماہر نے کہا کہ ڈیپ سیک امریکہ کے لیے سپوٹنک جیسا لمحہ ہے, جب روس نے خلا میں راکٹ لانچ کر امریکہ کو دنگ کر دیا تھا۔

اوپن اے آئی کے سی ای او سیم ایلٹمین نے بھی ڈیپ سیک کو ’متاثرکن‘ کہا ہے۔

ڈیپ سیک کی دھماکے دار انٹری سے امریکی سٹاک مارکیٹ میں ہلچل مچ گئی ہے۔

چپ بنانے والی کمپنی اینویڈیا کے سٹاک کی مالیت میں 589 ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی، جب کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کا انڈیکس نیزڈیک تین فیصد گر گیا۔

امریکہ اور چین کی ٹیکنالوجی کی دوڑ میں امریکہ کو شروع ہی سے سبقت حاصل رہی ہے اور تمام بڑی ٹیک کمپنیاں امریکی ہیں، جن میں ایپل، مائیکروسافٹ، گوگل، فیس بک وغیرہ شامل ہیں۔

یہی حال مصنوعی ذہانت کا بھی ہے کہ چیٹ جی پی ٹی بنانے والی اوپن اے آئی اور جیمینائی بنانے والی گوگل وغیرہ سبھی امریکی ہیں اور تصور یہی تھا کہ امریکہ اس میدان میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اس کا مقابلہ کوئی اور ملک نہیں کر سکتا۔

لیکن ڈیپ سیک نہ صرف جی پی ٹی کے سب سے اعلیٰ ماڈل کو ٹکر دے رہی ہے, بلکہ کمپنی کے مطابق اس کے اوپر صرف 60 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی ہے جب کہ اس کے مقابلے پر چیٹ جی پی ٹی اور جیمینائی اربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اور فرق یہ ہے کہ ڈیپ سیک اوپن سورس ہے، اس کا کوڈ مفت ہے اور اسے کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔

اس کے مقابلے پر چیٹ جی پی ٹی اور دوسری کمپنیوں کا ڈیٹا کوئی اور استعمال نہیں کر سکتا۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکہ نے چین کی کمپیوٹر ٹیکنالوجی پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اسے جدید ترین چپ بیجنے پر پابندی ہے۔

ڈیپ سیک آر 1 ایپل کے ایپ سٹور پر راتوں رات سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی فری ایپ بن گئی۔

ماہرین کے مطابق ڈیپ سیک کی ایپ فزکس، ریاضی اور عام ذہانت کے سوالات کے جواب اتنی ہی عمدگی سے دیتی ہے جتنی چیٹ جی پی ٹی، اور اس پر وقت بھی کم لگاتی ہے۔

البتہ ایک معاملہ ضرور ہے کہ چین کے بارے میں سوالات کو سینسر کر دیا جاتا ہے یا پھر یہ ایپ سوال کا جواب دینے ہی سے انکار کر دیتی ہے۔

ڈیپ سیک 2023 میں لیانگ وین فینگ نے قائم کی تھی۔ یہی وین فینگ ایک ہیج فنڈ ہائی فلائر کے مشترک بانی ہیں۔

ڈیپ سیک نے 10 جنوری کو وی تھری ماڈل لانچ کرتے ہوئے کہا تھا اس نے این ویڈیا کی ایچ 800 چپ استعمال کی ہے اور اس پر صرف 60 لاکھ ڈالر لاگت آئی ہے۔

یہ رقم امریکی کمپنیوں نے مقابلے پر 20 سے 50 گنا تک کم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈیپ سیک چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے۔

ہم نے دونوں کو اکھاڑے میں اتارا۔ سب سے پہلے ہم نے دونوں کو فٹزجیرلڈ کی ایک رباعی دی اور کہا کہ اس کا اردو میں ترجمہ کریں۔ چیٹ جی پی ٹی نے بہت بہتر ترجمہ کیا۔

پھر ہم نے دونوں کو غالب کے دیوان کا پہلا شعر دیا اور کہا کہ اس کا مطلب بیان کریں۔ ڈیپ سیک نے مطلب تو کسی حد تک درست بتایا مگر شاعر کے نام میں گھٹالا کر دیا۔

چیٹ جی پی ٹی کا جواب حیرت انگیز طور پر عمدہ تھا۔

دنیا کی سب سے عمدہ فلم کون سی ہے؟ اس سوال کا جواب دونوں نے اپنے طور پر دیا، مگر مجھے ذاتی طور پر ڈیپ سیک کا انداز زیادہ بہتر لگا۔

پھر میں نے دونوں سے ایک پہیلی پوچھی۔ وہ کون سا جانور ہے جو صبح چار ٹانگوں، دوپہر کو دو ٹانگوں اور شام کو تین ٹانگوں پر چلتا ہے؟

دونوں نے درست جواب دیا کہ انسان۔ مگر ڈیپ سیک کی وضاحت زیادہ بہتر تھی۔

گویا ہمارے مختصر سے غیرسائنسی ٹیسٹ سے دونوں کا سکور تقریباً برابر نکلا۔ البتہ چیٹ جی پی ٹی کی اردو واضح طور پر بہتر ہے۔ انگریزی میں دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔

ایک نئی نویلی کمپنی کے پہلے ورژن کا چیٹ جی پی ٹی جیسی مضبوط کمپنی کو ٹکر دینا حیران کن ضرور ہے، لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا یہ آگے چل کر امریکی دیو ہیکل کمپنیوں کا کس حد تک مقابلہ کر سکتی ہے جن کے پاس اربوں کھربوں ڈالر کا سرمایہ موجود ہے۔

اس کے علاوہ ڈیپ سیک کو شفافیت کا مسئلہ بھی درپیش ہے اور فی الحال معلوم نہیں کہ یہ کمپنی کام کیسے کرتی ہے، اس کی فنڈنگ کیسے ہوئی ہے۔ اس کی لاگت وغیرہ کے تخمینے بھی کمپنی کے اپنی دعووں پر مبنی ہیں جن کی غیر جانب دار ذرائع سے تصدیق ہونا باقی ہے۔

لیکن اس کے باوجود چینی کمپنی نے دکھا دیا ہے کہ وہ زبرست امریکی پابندیوں کے باوجود دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی