گذشتہ ماہ عراق میں زیارت و سیاحت کی غرض سے جانا ہوا۔ سفری پلان کے مطابق میں عراقی صوبے بابل بھی گئی، تاریخی مقامات سے پرے قدرے سنسان علاقے میں ایک مزار ہے، یہ مزار حضرت زید بن علی بن حسین کی یادگار ہے، جنہیں تاریخی کتب میں زید شہید کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ زید شہید امام حسین کے پوتے، امام علی زین العابدین کے بیٹے اور امام محمد باقر کے سگے بھائی تھے، تاہم اپنے بھائی محمد باقر کے برعکس زید بن علی نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا اور اموی حکومت کے ہاتھوں شہید کر دیے گئے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن کہ زید شہید کے ماننے والوں کو زیدیہ کہا جاتا ہے جبکہ زید شہید کا مزار آج بھی زیدی مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے۔
زیدی اپنی ابتدا سے آج تک حالت قیام میں ہے۔ زیدی کمیونٹی کسی ظالم یا قابض کے آگے مصالحت کے نام پر سر جھکانا نہیں جانتی، تاریخ کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ زید شہید کے ماننے والوں نے ہر دور کے یزید کے خلاف علم بغاوت بلند کیے رکھا۔
زیدی سادات وہ ہوہی ہیں جن کے ماننے والے آج عرف عام میں یمن کے حوثی قبائل کہلاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان قبائل کے عمائدین کا شجرہ نسب امام حسن سے نسبت رکھتا ہے جبکہ یہ فقہ کے اعتبار سے امام ابو حنیفہ کو فالو کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ حوثی قبائل کے زیدی شیعہ، اثناعشری شیعوں یعنی بارہ اماموں کو ماننے والوں سے قدرے مختلف ہیں۔
حوثی قبائل کی یہ تاریخ مدنظر رکھیں تو آج کے یمن کی صورتحال سمجھنے میں دقت نہیں ہوگی۔ آپ یمن کے حوثی باغیوں پر بنائی گئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی ڈاکیومینٹریز دیکھ لیں، آپ ان حوثی ملیشیا کے جوانوں کو خراب صحت اور برے حالوں میں دیکھیں گے، یہ پاوں میں ربڑ کی پھٹی چپل مگر شانے پر ہتھیار لیے پچھلے۔ پانچ سال سے سعودی فورسز کا مقابلہ کررہے ہیں۔ حوثی ملیشیا میں اگرچہ سنی فرقے کے مسلمان بھی شامل ہیں مگر بہرحال یہ تحریک یمن کے حوثی قبائل چلارہے ہیں جو کہ زیدیوں سےتعلق رکھتے ہیں۔
یمن اور سعودی عرب پچھلے پانچ سال سے آمنے سامنے ہیں، میں اسے ایک باقاعدہ جنگ بھی نہیں کہہ سکتی کیونکہ ایک طرف سعودی عرب اپنی پوری عسکری سبقت کے ساتھ موجود ہے تو دوسری طرف یمن کے حوثی باغی ہیں۔ دونوں فریقین کی فوجوں کا کوئی مقابلہ نہیں مگر یہ پھر بھی پانچ سال سے مد مقابل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یمن کے حوثی باغیوں کو ایران کی سپورٹ حاصل ہے جبکہ دوسری جانب سعودی عرب ہے جس کے تیل کی طاقت اسے دوست خرید کر دیتی ہے۔
سعودی عرب کو ضد ہے کہ یمن میں اس کے آشیرباد سے حکومت بنے، جبکہ حوثی قبائل کی وجہ شہرت ہی ’بغاوت‘ ہے یعنی کسی بھی قابض یا ظالم حکومت سے باغی۔
سعودی عرب کو اپنا تیل بیچنے کے لیے اس خطے کے سمندر اور یمنی حکومت پر کنٹرول چاہیے، اور ادھر یمنی قبائل کسی کے کنٹرول میں کب آئے ہیں۔ لڑائی کی جڑ یمنی حدود میں آنے والا باب المندب ہے جو کہ چالیس کلومیٹر کا وہ سمندری راستہ ہے جسے سعودی عرب اپنے تیل کی برآمدات کے لیے استعمال کرتا ہے مگر ادھر حوثی باغی رکاوٹ بنے بیٹھے ہیں۔ سعودی عرب ماڈرن اسلام کے ایک نئے تشخص کے ساتھ ابھرنا چاہتا ہے مگر ادھر یمن کے بچوں پر سعودی بمباری کی وڈیوز نے سارا امیج خراب کررکھا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میرا ماننا ہے کہ جیسے عسکری و معاشی سبقت کے بل بوتے پر سعودی عرب یہ جنگ برسہا برس چلا سکتا ہے، ویسے ہی حوثی باغی بھی اس جنگ کو لامحدود زمانوں تک کھینچ سکتے ہیں۔ ہم پاکستانی تو افغان جنگ کا نقشہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ کیسے روسی اور امریکی فوجی خشک روٹی سے پیاز کھانے والے جہادیوں کو پچھاڑ نہیں پائے۔ ایسے ہی یمن کا معاملہ بھی ہے جہاں جنگ برسوں چل سکتی ہے بس شکست جسے ہو گی وہ انسانیت ہی ہو گی۔ موت چاہے ادھر ہو یا اُدھر جان مسلمان کی ہی جارہی ہے، مالی نقصان یمن کو ہو یا سعودی عرب کو، متاثر نبیﷺ کے امتی ہی ہورہے ہیں۔
ابھی دو روز قبل ہی سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک انٹرویو میں بہت سی مثبت باتیں کی ہیں۔ انہوں نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر ریاست کی ذمہ داری قبول کی ہے ساتھ ہی یمن کے معاملے پر جنگ کے بجائے بات چیت کو ہی حل گردانا ہے۔ یقیناً سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والی مسلم ممالک کی مشترکہ افواج بناتے ہوئے محمد بن سلمان نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ یمن پانچ سال لے لے گا اور فتح بھی نہیں ہوگا۔ مگر اب حالات اس نہج پر ہیں کہ سعودی ارامکو کی آئل ریفائنری پر یمن کی ملیشیا نے حملہ کیا اور ایک دوسرے واقعے میں درجنوں سعودی فوجیوں کو جنگی قیدی بنایا ہے۔ مگر محمد بن سلمان کہتے ہیں کہ اب بات ہو گی، حملہ بیوقوفی ہے، اب صرف بات ہو گی۔
چلیں ایک لمحے کو یمن کی قحط سالی بھول جائیں، فاقہ کشی سے مرتے بچے بھی بھول جائیں اور پچھلے پانچ سال کی اس جنگ میں مرنے والے 15 ہزار مسلمان مردوں، جوانوں، عورتوں اور بچوں کی یاد بھی نہ دہرائیں، حوثی باغی یہی سوچ لیں کہ شہزادہ شاید جنگ سے بور ہوگیا ہے، چلو اس طویل قیام کو اب ختم کریں۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے یمن کے معاملے پر اب غرانے کے بجائے اگر مذاکرات کی بات کرہی دی ہے کہ تو ہمارے کپتان خان صاحب کو چاہیے کہ موقعے کا فائدہ اٹھائیں اور دو مسلم ممالک کے درمیان ہونے والی اس قتل و غارت گری کو ختم کرائیں۔
پاکستان کے سابق آرمی چیف راحیل شریف سعودی عرب کے فوجی معاملات دیکھ رہے ہیں بجائے یہ کہ وہ یمن کے مسلمانوں پر امریکی بموں سے مزید موت برسائیں چیف صاحب بھی کچھ اپنا کردار ادا کریں اور اب کی بار صرف پاکستان نہیں پوری امہ کو ’شکریہ راحیل شریف‘ کہنے کا ایک اور موقع دیں۔
یمن سعودی عرب جنگ کو عمومی طور پر ایران بمقابلہ سعودی عرب گردانا جاتا ہے اور مغربی میڈیا اسے فرقوں کی جنگ بھی قرار دیتا ہے، مگر یمن معاملے کو قریب سے دیکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ معاشی مفادات کی جنگ ہے جس میں یمن چیونٹی بن کر ہاتھی کی سونڈ میں گھس گیا ہے۔
عمران خان صاحب محمد بن سلمان کے قریب بھی ہیں اور انہیں عزیز بھی، ڈپلومیسی کی کوئی چال چلیں۔ ایران کو اینگیج کریں، امریکہ کے صدر ٹرمپ بھی خان صاحب کے بڑے فین ہیں اور وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ تمام اشارے مثبت ہی مل رہے ہیں، ایسے میں خان صاحب کی معمولی کوشش بھی یمن کے لیے بڑے نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔
قارئین میرے اس خیال پر پریشان نہ ہوں۔ میں یمن پر بات کررہی ہوں کیونکہ مجھے کشمیر اچھی طرح یاد ہے۔ یمن معاملے پر پاکستان کی ڈپلومیسی اسے بین الاقوامی سیاست میں مرکزی کردار دے سکتی ہے۔ مسلم دنیا کے معاملات پر گونگے بہرے بنے رہنے سے کچھ ملنے والا نہیں، ہم دنیا کے لیے اہم ہوں گے تو ہمارے مسائل بالخصوص مسئلہ کشمیر بھی دنیا کے لیے اہم ہوگا۔