سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی پائپ لائن کو ڈرون سے نشانہ بنایا گیا ہے جس کے بعد اس نے خام تیل نکالنا بند کر دیا ہے۔
اس سے چند گھنٹے قبل یمن کے حوثی جنگجوؤں نے سعودی عرب کی اہم تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔
سعودی عرب کے توانائی کے وزیر خالد الفالح نے بتایا ہے کہ منگل کی صبح تیل سے مالا مال مشرقی صوبے سے لے کر بحیرہ احمر تک دو پائپ لائنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس بڑی پائپ لائن میں یومیہ کم از کم 50 لاکھ بیرل کی گنجائش ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق خالد الفالح نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’سعودی آرامکو نے احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے عارضی طور پر پائپ لائن پر کام روک دیا ہے،وہاں صورتحال کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور متاثرہ پمپ سٹیشن اور پائپ لائن کی بحالی کے لیے کام جاری ہے۔‘
اس سے قبل سعودی عرب کی جانب سے اپنے دو تیل بردار بحری جہازوں کے سبوتاژ حملوں میں متاثر ہونے کے دعویٰ کیا گیا تھا جس کے بعد آبنائے ہرمز میں کشیدگی اور ممکنہ جنگی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
سعوی عرب اور متحدہ عرب امارات نے تصدیق کی ہے کہ فجیرہ کے ساحل کے قریب چار بحری جہازوں کو سبوتاژ کیا گیا تھا جن میں دو کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔
اس حملے کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس حملے کے بعد پہلے سے کشیدہ خطے میں جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔
50 کلومیٹر چوڑی آبنائے ہرمز تیل اور گیس کی تجارت میں شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے بیچ و بیچ یا قریب کسی بحری جہاز پر حملے کی نوعیت مزید سنگین ہو جاتی ہے۔
ایران کے ساتھ کشیدگی کے پس منظر میں امریکہ نے حال ہی میں اپنے بحری بیڑے کو خطے میں تعیناتی کے لیے روانہ کیا ہے۔ اس صورتحال میں امریکہ یا اس کے اتحادیوں کی جانب سے ایران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی تہران کو مشتعل کر دے گی جو خلیج یا خطے میں کہیں بھی جوابی کارروائی کر سکتا ہے جس میں ممکنہ طور پر سعودی عرب یا متحدہ امارات کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانا بھی شامل ہو سکتا ہے۔
اس کے باوجود واشنگٹن میں چند بڑی شخصیات جیسے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیرخارجہ مائیک پومپیو جنگ کا خطرہ مول لینے کو تیار نظر آتے ہیں۔
جان بولٹن تو اعلانیہ طور پر ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
گذشتہ برس اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے سے قبل بولٹن نے کہا تھا: ’تہران میں ملاؤں کی حکومت کا خاتمہ امریکہ کی اعلانیہ پالیسی ہونی چاہیے۔‘
رواں سال فروری میں بغداد میں امریکی سفارت خانے کے قریب مارٹر گولے گرنے کے واقعے کو وجہ بتاتے ہوئے بولٹن اور پومپیو نے بلاجھجھک پینٹاگون کو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی ممکنہ آپشنز کی تیاری کا حکم دیا تھا۔ ان آپشنز میں میزائل اور فضائی حملے بھی شامل تھے تاہم یہ واضح نہیں کہ وہ اس ممکنہ حملے سے کیا حاصل کرنا چاہتے تھے۔
امریکہ اور سعودی عرب ایران کے خلاف جنگ کی باتیں کرتے رہے ہیں جبکہ سخت معاشی پابندیاں تہران کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔
گذشتہ سال کی مقابلے میں ایرانی تیل کی برآمدات 28 لاکھ بیرل یومیہ سے کم ہو کر 13 لاکھ بیرل یومیہ رہ گئی ہیں جو مزید گرنے کا امکان ہے۔
ملک میں مہنگائی کی شرح 40 فیصد سے بڑھ گئی ہے جبکہ یورپی یونین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی جانب سے ایران کے بینکنگ اور تیل کی تجارت کو پابندیوں سے بچانے کا وعدہ بھی وفا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
بین الاقوامی کمپنیاں امریکی پابندیوں کے ڈر سے ایران کے ساتھ لین دین سے گریز کر رہی ہیں۔ ایران سیاسی طور پر نہیں تو مالیاتی طور پر عالمی تنہائی کا شکار نظر آ رہا ہے۔
ان حالات میں ایران کا سعودی جہازوں کو سبوتاژ کرنے کے واقعے میں ملوث ہونا بعید از قیاس ہے۔
اگرچہ ایرانی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے لیکن اس میں یہ صورتحال برداشت کرنے کی صلاحیت بہرحال موجود ہے جیسا کہ کویت پر حملے کے بعد عالمی پابندیاں صدام حکومت گرانے میں ناکام رہی تھیں۔
اتوار کو ہونے والے حملے کے حوالے سے پراسراریت ابھی تک برقرار ہے۔
سعودی عرب کے توانائی کے وزیر خالد الفالح کا کہنا ہے کہ اگرچہ حملے میں کوئی جانی نقصان یا تیل کا رساؤ نہیں ہوا لیکن اس حملے سے ٹینکروں کے ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
یہ واقعہ امریکہ اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں خطرناک صورتحال اختیار کر سکتا ہے۔
اسی بارے میں مزید پڑھیے
امریکہ کا ایران کو ’واضح پیغام‘ دینے کے لیے جنگی بیڑہ روانہ
کشیدگی میں اضافہ اس وقت مزید بڑھ گیا جب صدر ٹرمپ نے خلیج میں ایک طیارہ بردار بیڑہ روانہ کر دیا اور ایران نے 2015 کے ایٹمی معاہدے کو معطل کر دیا۔
تاہم ایران نے اس بار اعتدال کا مظاہرہ کیا ہے اور یورپی یونین، روس اور چین سے تعاون کو فروغ دینے کے لئے سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔
اس وجہ سے یہ قیاس کرنا مشکل ہے کہ سعودی ٹینکرز پر حملہ کرنے میں ایران کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے سبوتاژ واقعے کے بارے میں مزید معلومات طلب کی ہیں۔ انہوں نے غیر ملکیوں کی جانب سے کسی بھی سازش اور مہم جوئی کے خلاف بھی خبردار کیا ہے۔
صدر ٹرمپ الزام لگاتے رہے ہیں کہ ایران مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی اور جارحیت کو فروغ دے رہا ہے۔
سعودی عرب کی پالیسی اس وقت سے اور بھی زیادہ غیر یقینی محسوس ہوتی ہے جب سے اقتدار پر شہزادہ محمد بن سلمان کی گرفت مضبوط ہوئی ہے جنہوں نے کھل کر ایران کے ساتھ سخت دشمنی کا اظہار کیا ہے۔
اس سنگین ماحول میں سبوتاژ حملے جیسا کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی ایک چنگاری ثابت ہو سکتا ہے جس سے پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔