بلدیہ عظمیٰ کراچی نے نہ صرف شہر کی دیواروں سے وال چاکنگ، اشتہارات اور پمفلٹس ہٹا کر دیواروں پر رنگین پینٹنگز بنانے کا اعلان کیا ہے بلکہ وال چاکنگ کے ذریعے شہر کا حسن بگاڑنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کے مطابق دیواروں پر سیاسی مخالفین کے خلاف نفرت انگیز تحریروں، نعروں، طبی علاج او روحانی مسائل کے حل کے لیے شہر کی دیواروں پر وال چاکنگ سے دیکھنے والوں پر برا اثر پڑتا ہے، اس لیے وال چاکنگ اور اشتہارات کو ہٹا کر رنگین پیٹنگز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں میئر کراچی نے کہا: ’کراچی کے شہری کی حیثیت سے میں دیکھتا ہوں کہ شہر کی دیواروں کی کوئی ملکیت نہیں ہوتی۔ جس کا جب دل چاہے دیواروں پر کچھ بھی لکھ دیتا ہے۔
’اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ شہر کی دیواروں کو صاف کیا جائے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ایک بار اگر کسی دیوار کو چونا کرکے صاف کیا جاتا ہے تو چند روز بعد اس دیوار پر بھی کوئی نہ کوئی آکر کچھ لکھ جاتا ہے، اس لیے ہم نے ایک تجربہ کیا کہ جہاں ہم نے وال چاکنگ ہٹا کر وہاں اچھی پینٹنگز بنوائیں یا گرافٹی اور آرٹ ورک کروایا تو وہاں کسی نے دوبارہ وال چاکنگ نہیں کی۔‘
مرتضیٰ وہاب کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی نے پولیس کے ساتھ مل کر شہر کی دیواروں پر وال چاکنگ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ شہر کے تھانوں کو وال چاکنگ میں ملوث افراد کو فوری گرفتار کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں جبکہ دیواروں پر پینٹنگز اور اشتہارات لگانے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔
میئر کراچی نے بتایا کہ ان کی درخواست پر کراچی پولیس (شرقی) نے وال چاکنگ کرنے والوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کر دی ہے اور اس کے بہتر نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں۔
شہر کی دیواروں سے ایک بار وال چاکنگ ہٹانے کے بعد اس بات کی کیا ضمانت ہوگی ہے کہ یہ دوبارہ نہیں ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں مرتضیٰ وہاب نے بتایا: ’ہم سب شہریوں کا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے شہر کو صاف رکھیں، اس لیے ہم مہم چلا رہے کہ شہر کو صاف رکھنے میں شہری بھی ہمارا ساتھ دیں۔‘
کراچی میں وال چاکنگ کی تاریخ اور اس کی سیاسی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس نے بتایا کہ وال چاکنگ ہمیشہ سیاسی تحریکوں کا اہم حصہ سمجھی جاتی ہے۔
مظہر عباس کے مطابق: ’جب اخبارات پر پابندیاں ہوں، سینسرشپ ہو اور آزادی اظہار پر پابندی ہو تو دیواریں ہی اظہارِ رائے کا ایک ذریعہ رہ جاتی ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’وال چاکنگ کوئی نئی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ رجحان بہت پرانا ہے۔ بے نظیر بھٹو اپنے کارکنوں کی 70 کلفٹن پر تربیت کرتی تھیں کہ کون سی دیواروں پر وال چاکنگ کی جائے، اس لیے ماضی میں وال چاکنگ سیاسی تحریکوں میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔‘