سندھ حکومت کا سلنڈر دھماکوں کی روک تھام کے لیے کریک ڈاؤن

رواں سال جون میں حیدرآباد میں سلنڈر دھماکہ ہونے کے بعد سندھ حکومت نے تمام ڈپٹی کمشنروں کو مراسلے جاری کیے جن میں ایل این جی اور ایل پی جی کی دکانوں کی انسپیکشن کی سمیت غیر معیاری سلنڈرز ضبط کرنے اور تمام دکانوں کو ایس او پیز کی پابندی کا حکم دیا گیا۔

کراچی میں سندھ حکومت نے شہر سمیت سندھ بھر میں غیر قانونی ایل پی جی اور ایل این جی کی دکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے جو تاحال جاری ہے۔

رواں سال جون میں حیدرآباد میں سلنڈر دھماکہ ہونے کے بعد سندھ حکومت نے تمام ڈپٹی کمشنروں کو مراسلے جاری کیے جن میں وزیر داخلہ سندھ ضیا لنجار نے ڈپٹی کمشنروں کو حکم دیا کہ ایل این جی اور ایل پی جی کی دکانوں کی انسپیکشن کی جائے، غیر معیاری گیس سلنڈرز ضبط کیے جائیں اور تمام دکانوں کو ایس او پیز کے تحت چلانے کا پابند کیا جائے۔

مزید یہ کہ غیر قانونی ایل این جی اور ایل پی جی سلنڈرز دکانوں کی انسپیکشن کرکے ہر ہفتے رپورٹ پیش کی جائے۔ غیر معیاری سلنڈرز ضبط کیے جائیں، اور ایل این جی اور ایل پی جی دکانیں بازاروں اور اقامتی علاقوں سے دور منتقل کرائی جائیں۔

انسپیکشن کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے 30 اکتوبر کو ایل پی جی سلنڈر کی غیر قانونی فروخت پر سندھ اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کے دوران وزیر داخلہ سندھ ضیا لنجار نے کہا کہ ایل پی جی سلنڈرز سے ہونے والے واقعات کی روک تھام کے لیے دکانداروں کو نوٹس بھی جاری کیے جا رہے ہیں، جبکہ عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے جا رہے ہیں۔

’اصول و ضوابط اپنانے والے دکاندار بھی پولیس کے نشانے پر؟‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ایل پی جی کے کاروبار سے وابستہ دکاندار ارشاد کیانی کا کہنا تھا کہ وہ ایل پی جی کے کاروبار سے 22 سالوں سے منسلک ہیں اور وہ سندھ حکومت کی ہدایت کے مطابق کاروبار کو لے کر چل رہے ہیں جس میں احتیاطی تدابیر کے تمام نظم و ضبط شامل ہیں۔ اوگرا کا سرٹیفیکیٹ اور اجازت نامہ بھی موجود ہے، سلنڈر کے معیاری دستاویزات بھی دکان پر رکھے ہیں تاکہ انسپیکشن ٹیم کو مطمئن کیا جا سکے۔ دکان میں آگ بجھانے کے آلات (فائر سٹنگویش) رکھے گئے ہیں، ایمرجنسی کی صورت میں گیند نما آلہ ہے، ہلکی پھلکی آگ یا چنگاری کو قابو کرنے کے لیے ریت رکھی ہے، ہنگامی صورتحال میں الارم بجنے کی سہولت بھی موجود ہے اور فرسٹ ایڈ باکس کے ساتھ مخصوص قسم کا فائر کمبل بھی رکھا ہوا ہے۔

بقول ایل پی جی دکاندار کے ان کے گھر کا چولہا اسی کاروبار سے چلتا ہے ’لیکن قاعدے قانون کے ساتھ کاروبار چلانے پر بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے تنگ کر رہے ہیں۔ پولیس کی موبائل آتی ہے، دستاویزات دیکھنے کے باوجود دباؤ ڈالتے ہیں۔ کریک ڈاؤن کی آڑ میں وہ کاروباری افراد بھی پس رہے ہیں جو سندھ حکومت کی جاری ہدایت پر باقاعدگی سے عمل پیرا ہیں۔‘

اسی حوالے سے ضلع شرقی کے ڈپٹی کمشنر شہزاد فضل عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈپٹی کمشنرز نے اپنے اپنے اضلاع میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران کی جانے والی کارروائیوں کی رپورٹ کمشنر کراچی کو پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق 97 دکانیں سیل کی گئیں جبکہ 15 دکانداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ ایس او پیز پر عملدرآمد کرنے والوں کے لیے ایس ایس پی کو درخواست دی جائے گی کہ بے جا دکانداروں کو تنگ نہ کیا جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

23 مئی کو اوگرا نے اعلامیہ جاری کیا تھا جس کے مطابق غیر مجاز ڈسٹری بیوٹرز کو ایل پی جی سلنڈرز اور گیس فروخت کرنے پر مارکیٹنگ کمپنیوں کے خلاف کارروائی سمیت مانیٹرنگ کے تمام اختیارات ڈی سی اور اے سی کو دے دیے گئے تھے۔ ضلع وسطی کے ڈپٹی کمشنر طحہ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ ’ایل پی جی کی غیر قانونی دکانوں کے بعد ایسے ہوٹلوں کو بھی سیل کریں گے جو غیر معیاری سلنڈرز کا استعمال کر رہے ہیں۔‘

گھریلو صارفین اور ہوٹل مالکان ایل پی جی کے سہارے

قدرتی گیس کی قلت اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ملک بھر میں ایل پی جی کو متبادل توانائی کے طور پر گھروں اور ہوٹلوں میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ شہناز بی بی، جو گلشن اقبال کی رہائشی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گیس بحران دن بہ دن شدت اختیار کر چکا ہے۔ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ گیس شیڈنگ سے پریشان ہو کر مجبوراً سلنڈر پر گزارا کر رہے ہیں جس سے بجٹ درہم برہم ہوا ہے۔ گیس کا بل اور پھر سلنڈر کا خرچہ الگ ہے۔ اب چونکہ سردیوں کی آمد ہے اور ماہ رمضان بھی نزدیک ہیں، ایسے میں گیس بحران شدت اختیار کر جاتا ہے۔‘

ہوٹل مالکان کا کہنا ہے کہ ’تقریباً تمام ہوٹلوں کے کچن سلنڈر پر چل رہے ہیں۔ لیکن کریک ڈاؤن کے بعد ایل پی جی کے نرخ میں اضافہ ہو گیا ہے، اور اب ایل پی جی 300 روپے فی کلو ہو چکی ہے جبکہ متعدد ہوٹل بھی بند ہو گئے ہیں۔‘

اسی حوالے سے ماہر توانائی ابوبکر اسماعیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آنے والے دنوں میں ایل پی جی کا استعمال مزید بڑھ جائے گا، جس سے قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ یہاں تک کہ مقامی پروڈکشن کم ہونے کے بعد ایل این جی امپورٹ کرنا پڑے گی۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے گیس کی فراہمی جاری ہے جو آنے والے وقتوں میں بھی گھریلو صارفین کی ضرورت رہے گی۔ فی الحال انڈسٹریز بند نہیں ہو رہیں اس لیے براہ راست گیس بحران کا اثر صنعت اور معیشت پر نہیں پڑ رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان