بلوچستان اسمبلی کے ٹشو پیپر کراچی کے ایک نجی ہوٹل میں استعمال ہونے کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس پر صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی میں سہراب گوٹھ کے قریب الآصف سکوائر کے سامنے واقع سمندر خان نامی ہوٹل پر بلوچستان اسمبلی کے ٹشو پیپر ہوٹل کی میزوں پر دستیاب ہیں جو کہ ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے صارفین کو استعمال کے لیے مہیا کہیے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس ہوٹل پر کھانا کھانے کے لیے آئے ایک شہری نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کی جس میں اردو اور انگریزی زبان میں ٹشو پیپر کے ڈبوں پر بلوچستان اسمبلی کا نام اور لوگو نظر آ رہے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے ٹشو پیپر کراچی کے ہوٹل پر ملنے کا معاملہ سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے اور صارفین سوال کر رہے ہیں کہ ٹشو پیپر اتنی بڑی تعداد میں ہوٹل کیسے پہنچے۔
کامران نسیم نامی شخص نے فیس بک پر لکھا کہ ’بلوچستان صوبائی اسمبلی کے ٹشو پیپرز کراچی کے ہوٹلوں میں کسٹمرز کو میزوں پر پیش کیے جا رہے ہیں۔ ٹشو پیپر اتنی بڑی تعداد میں کراچی کے ہوٹلوں میں کیسے پہنچ گئے؟ کیا بلوچستان اسمبلی کے ٹشو پیپر باکسز میں بھی کرپشن اور خردبرد کی جا رہی ہے؟
شیر زمان کاکڑ نامی شہری کا کہنا تھا کہ ’ٹشو پیپر جیسی کم قیمت چیز بھی کرپشن کی نذر ہو گئی ہے، یہ معاملہ انتہائی شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔‘
سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے پر سیکرٹری بلوچستان اسمبلی طاہر شاہ کاکڑ نے کہا ہے کہ ’بلوچستان اسمبلی کی ٹیم تحقیقات کے لیے کراچی روانہ ہو گئی ہے جہاں ٹھیکے دار سمیت دیگر کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
‘سیکرٹری کے بقول: ’اسمبلی کے لیے ٹشو پیپرز کا ٹھیکہ کراچی کی ایک کمپنی کو دیا گیا ہے کمپنی اور ہوٹل انتظامیہ سے تحقیقات کی جا رہی ہیں، حقائق سامنے آنے پر سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
حکومت بلوچستان کی جانب سے نوٹس لینے کے بعد کراچی کے ہوٹل انتظامیہ نے ایک ویڈیو بیان میں حکومت بلوچستان سے معذرت کی ہے تاہم انہوں نے کسی کمپنی یا فروخت کرنے کے حوالے سے کوئی تفصیلات شیئر نہیں کیں۔
ہوٹل انتظامیہ نے کہا ہے کہ ’ہمارے پاس 40 سے 50 ڈبے کہیں سے آگئے تھے ایک ڈبہ بنانے والا شخص سیمپل کے طور دے کر گیا تھا۔ ہمارے پاس مزید ڈبے نہیں ہیں۔‘
کراچی سہراب گوٹھ کے ایس ایچ او وزیر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اطلاع ملنے پر کارروائی کی گئی تاہم ہوٹل پر ٹشو پیپر کے محض چند ڈبے ملے۔
’بلوچستان اسمبلی کی ٹیم کے ساتھ مل کر کارروائی عمل میں لائی گئی تاہم اس کیس میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس سلسلے میں ترجمان حکومت بلوچستان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔