ہالی وڈ کی رومینٹک کامیڈی ڈراما فلم ’انورا‘ نے بہترین فلم سمیت پانچ آسکرز ایوارڈز اپنے نام کیے۔ لیکن اسی ہنگامے میں ایک ایسی فلم لاپتہ ہو گئی جسے انڈیا نے مقابلے کے لیے بھیجا ہی نہیں۔ اس کی بجائے انڈیا کی آسکرز کے لیے آفیشل انٹری ’لاپتہ لیڈیز‘ تھی جسے اکیڈمی نے شارٹ لسٹ ہی نہیں کیا۔
آسکر ایوارڈ جیتنے کے بعد ’انورا‘ کی باکس آفس پہ چاندنی ہو گئی، کمائی میں 144 فیصد کی رفتار سے اضافہ۔ ایک تجسس لوگوں کو کھینچ کر سینیما گھروں میں لا رہا کہ اس فلم میں کیا ہے جس نے ہالی وڈ کا سب سے بڑا ایوارڈ شو سویپ کیا۔
اگر آپ 2024 کی ٹاپ 30 باکس آفس ہٹ ہالی وڈ فلمیں نکالیں تو ان میں ’انورا‘ کا کہیں نام و نشان نہیں۔ آپ کو 2016 کی فلم ’مون لائٹ‘ یاد ہو گی۔ بہترین فلم کا آسکر جیتنے کے باوجود یہ دنیا بھر میں محض ساڑھے چھ کروڑ ڈالر کا بزنس کر سکی۔
آسکر اور باکس آفس کے تعلق کی تاریخ کافی دلچسپ ہے۔ شروع میں دونوں ایک ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ ’گان ود دا وینڈ‘ ہو کہ ’بن ہر‘ یا ’ساؤنڈ آف میوزک،‘ یہ فلمیں باکس آفس اور آسکر دونوں میں ٹاپ پر رہیں۔ 50 اور 60 کی دہائی میں اکثر فلموں کا یہی حال ہے۔
70 کی دہائی سے پہلے، آپ تقریباً یقین کر سکتے تھے کہ جو بھی فلم بہترین فلم کا آسکر جیتے گی، وہ باکس آفس پر بھی زبردست کامیابی حاصل کر چکی ہو گی۔
70 کی دہائی میں سب کچھ بدل کر رہ گیا۔
’جاز‘ کی دھماکہ خیز ریلیز کے باوجود آسکر کی دوڑ میں بہت پیچھے رہنے والی یہ فلم وہ دراڑ تھی جو بتدریج خلیج میں تبدیل ہوئی۔
دو سال بعد ریلیز ہونے والی ’سٹار وارز‘ صرف امریکہ نہیں دنیا بھر میں بے پناہ مقبول ہوئی۔ اسے کئی آسکر ایوارڈز کے لیے نامزد کیا گیا، لیکن صرف تکنیکی کیٹیگریز میں کامیابی ملی۔ اس کے برعکس، بہترین فلم کا ایوارڈ ’اینی ہال‘ کو ملا جو وڈی ایلن کی کلاسک فلموں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ فلم سٹار وارز کے مقابلے میں باکس آفس پر ہونے نہ ہونے جیسی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہیں سے رجحان مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔ 1980 کی دہائی میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں اور آسکر ایوارڈز کے درمیان رہا سہا تعلق بھی ختم ہو کر رہ گیا۔
پوری دہائی میں محض ایک فلم ایسی ہے جس نے آسکر اور باکس آفس دونوں جگہ پہلے نمبر پر رہی، ’رین مین۔‘ 90 کی دہائی میں ایسی مثالیں ’ٹائٹینک‘ اور ’فارسٹ گمپ‘ کی ہیں۔
موجودہ رجحانات جانچنے کے لیے چند فلموں کی مثالیں دیکھیے۔
2010 کی فلم ’دی کنگز سپیچ‘ بہترین فلم کا آسکر جیتنے سے پہلے عالمی سطح پر تقریباً 14 کروڑ ڈالر ہی کما سکی تھی۔ آسکر جیتنے کے بعد اس کی کمائی 41 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی جو غیر معمولی اضافہ ہے۔
اسی طرح معمولی بجٹ کی فلم ’سلم ڈاگ ملینیئر‘ ہے جو باکس آفس پر محض 4.4 کروڑ ڈالر کما سکی تھی۔ لیکن آٹھ آسکر ایوارڈز جیتنے کے بعد اس کی کمائی 37 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر گئی۔
2011 کی بلیک اینڈ وائٹ فلم ’دی آرٹسٹ‘ کو آسکر جیتنے سے بہت کم پذیرائی ملی۔ اس نے بہترین فلم سمیت پانچ آسکر جیتے اور راتوں رات شائقین کی بڑی تعداد سے متعارف ہوئی۔
حالیہ عرصے میں ’اوپن ہائیمر‘ ایسی فلم ہے جس نے باکس آفس اور آسکر پر بیک وقت راج کیا۔ 95 کروڑ ڈالر کی کمائی اور سات آسکر ایوارڈز جیتے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ تنقیدی طور پر سراہا جانے والا سینیما بھی تجارتی طور پر بہت کامیاب ہو سکتا ہے۔
اب ذکر کرتے ہیں ’لاپتہ لیڈیز‘ اور انڈیا کی ایک لاپتہ فلم کا۔
’لاپتہ لیڈیز‘ کے ساتھ تین سٹار پاورز تھیں، عامر خان، کرن راؤ اور نیٹ فلیکس۔ باکس آفس پر خاص کمال نہ دکھانے کے باوجود انڈین میڈیا اور سوشل میڈیا نے اسے مرنے نہ دیا۔ بلاشبہ یہ ایک عمدہ فلم تھی مگر آسکر کے سٹیج پر محض ایک ہندسہ۔
انڈیا ایک متنوع اور بھرپور فلمی صنعت کا حامل ملک ہے، لیکن آسکر کے لیے اس کی نامزدگیاں اکثر ان کہانیوں کو ترجیح دیتی ہیں جو مغربی دنیا کی انڈیا کے بارے میں بنی بنائی تصویر سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ یہ فلمیں زیادہ تر غربت، ذات پات کے مسائل اور سماجی و سیاسی انتشار پر مرکوز ہوتی ہیں، جن کا سینیما کی ثقافتی وراثت اور لارجر دین لائف امیج سے برائے نام تعلق ہوتا ہے۔ انڈیا کو سمجھنا چاہیے کہ آسکر کسی این جی او کا ایوارڈ نہیں، پروپیگنڈا چلتا ہے مگر کچھ تو فنی خوبیاں بھی ہوں۔
سینیما کا کوئی طالب علم بہترین فلموں کی کسی فہرست پر اندھا دھند اعتماد کر سکتا ہے تو وہ ہے سائیٹ اینڈ ساؤنڈ کی منتخب کردہ بہترین فلمیں۔ بہترین فلموں کا ایک جگہ ایسا ڈیٹا آسکر سمیت کوئی ایوارڈ فراہم نہیں کر سکتا۔
سائیٹ اینڈ ساؤنڈ نے گذشتہ برس دنیا بھر سے بہترین فلموں کی فہرست نکالی۔ اس میں پہلے نمبر پر تھی ’آل وی امیجن ایز لائٹ۔‘ انڈیا نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے ’لاپتہ لیڈیز‘ کو ترجیح دی جو محتاط لفظوں میں بھی ایک احمقانہ فیصلہ تھا۔
’آل وی امیجن ایز لائٹ‘ کین فلم فیسٹیول میں گراں پری جیتنے والی پہلی فلم تھی، یہ ایک ماسٹر پیس ہے۔ اسے ’یورپ زدہ‘ کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔ آپ نے شاید ہی میڈیا پر اس فلم کا تذکرہ سنا ہو۔ کیوں؟ نہ بڑا بینر، نہ بڑے نام، نہ پرموشن کا کوئی نظام۔ ایک شاہکار ’لاپتہ لیڈیز‘ کے شور میں بظاہر لاپتہ ہو گیا جسے وقت کے ساتھ ساتھ پذیرائی ملے گی۔
21ویں صدی کی بہترین انڈین فلموں میں سے ایک یہ فلم ممبئی میں زندگی گزارنے والی تین نرسوں کی کہانی بیان کرتی ہے۔ تکلیف دہ تلخ سچائیوں کا ایسا شاعرانہ انداز پاپولر بالی وڈ میں شاید ہی کبھی نظر آئے۔
فلم کا آغاز ممبئی کے مناظر سے ہوتا ہے، جس تین مرکزی کردار ہیں: دو نرسیں اور ایک اسپتال کا باورچی۔ ممبئی کے پس منظر میں ان لوگوں کے خطوط کی آوازیں سنائی دیتی ہیں جو اس ’خوابوں کے شہر‘ میں آ کر آباد یا برباد ہوئے۔ ان آوازوں میں جو بے گھری اور اجنبیت کا احساس جھلکتا ہے، وہ کسی مخصوص فرد سے منسوب نہیں، بلکہ شہری ہندوستان میں تنہائی کا گونجتی سناٹا ہے جو دیکھنے والے کو بھی اپنے لپیٹے میں لے لیتا ہے۔
اگر انڈیا اپنے تعصبات سے نکل کر یہ فلم نامزد کرتا تو عین ممکن تھا یہ میدان مار جاتی۔