پاکستان میں آج (پیر) سے سات روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز ہو گیا ہے، جس کے دوران کروڑوں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
تاہم مہم شروع ہوتے ہی جنوبی وزیرستان میں انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور اہلکاروں پر ’دہشت گردوں‘ نے حملہ کیا جس میں ایک پولیس اہلکار کی جان گئی۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف کا جنوبی وزیرستان میں انسداد پولیو مہم کی ٹیم کے تحفظ پر مامور پولیس اہلکاروں پر ’دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی۔‘ اور ’وزیراعظم کا واقعے میں کانسٹیبل کی شہادت پر اظہار افسوس کیا۔‘
وزیراعظم نے ایک بیان میں کہا کہ ’انسداد پولیو مہم کے کارکنوں پر اور ان کے تحفظ پر مامور اہلکاروں پر حملہ کرنے والے دہشت گرد انسانیت اور قوم کے دشمن ہیں۔‘
انہوں نے عوام سے اپیل ہے کہ ان عناصر کے دباؤ میں نہ آئیں ’ پولیو کے خلاف مہم کو جاری رکھی جائے گی۔‘
21 اپریل سے 27 اپریل تک جاری رہنے والی سات روزہ مہم رواں سال کی دوسری ملک گیر انسداد پولیو مہم ہو گی، جس کا مقصد چار کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا ہے۔
پولیو مفلوج کرنے والی ایک لاعلاج بیماری ہے، اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے پولیو ویکسین کی متعدد خوراکیں اور حفاظتی ٹیکوں کا مکمل کورس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔
رواں سال پاکستان میں اب تک پولیو کے چھ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
حکومت نے رواں برس کے پہلے نصف میں تین بڑی ویکسینیشن مہمات کی منصوبہ بندی کی ہے، جن میں اپریل اور مئی میں اضافی مہمات بھی شامل ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اتوار کے روز اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران چند بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر باضابطہ طور پر اس مہم کا آغاز کیا تھا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا: ’میری والدین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے میں ہماری مدد کریں۔ فیلڈ میں موجود ہماری ٹیموں کا ساتھ دیں تاکہ ہم اس وائرس کو ہمیشہ کے لیے ختم کر سکیں۔‘
وزیراعظم نے انسداد پولیو مہم میں مدد کرنے پر مقامی اور بین الاقوامی شراکت داروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ پاکستان اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
شہباز شریف نے یہ بھی بتایا کہ ’حکومت نے حساس علاقوں میں پولیو رضاکاروں کے تحفظ کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کیے ہیں۔‘
انہوں نے حکام پر زور دیا کہ وہ عوام کو متحرک کریں تاکہ وہ پولیو کے خلاف جنگ میں ’سپاہی‘ بن سکیں۔
قبل ازیں، وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت پولیو کے خاتمے کی کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ اس ملک گیر مہم میں چار لاکھ 15 ہزار پولیو ورکرز حصہ لیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2024 میں پاکستان میں پولیو کے 74 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔ صرف افغانستان اور پاکستان، دنیا بھر میں ایسے دو ممالک ہیں جہاں اب بھی پولیو موجود ہے۔
حکومت پنجاب کی ٹاسک فورس برائے پولیو کے 16 اپریل کو ایک اجلاس میں انکشاف ہوا کہ ملک بھر کے کم از کم 25 شہروں سے حاصل کیے گئے سیوریج کے پانی کے نمونوں میں بڑی مقدار میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔
پنجاب کے جن شہروں کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ان میں لاہور، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، بہاول نگر، ملتان اور رحیم یار خان شامل ہیں۔
پاکستان کا پولیو پروگرام 1994 میں شروع کیا گیا تھا، جسے مسلسل چیلنجز کا سامنا رہا ہے، جن میں ویکسین کے خلاف غلط معلومات اور مختلف طبقات کی جانب سے مزاحمت شامل ہیں، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حفاظتی ٹیکہ کاری مسلمانوں کے بچوں کو بانجھ بنانے کی غیر ملکی سازش یا مغربی جاسوسی کا بہانہ ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں، خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک گاڑی پر حملہ کرکے دو پولیو ورکرز کو اغوا کر لیا، جو ایک صحت مرکز سے ڈیوٹی کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔