’غزہ پر ظلم کا حصہ نہیں بن سکتے‘: انڈین کشمیر میں اسرائیلی کھجوروں کا بائیکاٹ

کشمیری کھجور فروش اپنے ذرائع خریداری کے حوالے سے خاص طور پر محتاط ہیں، خاص طور پر اسرائیل سے آئی کھجوروں کے بارے میں، کیونکہ غزہ اور لبنان میں جاری کشیدگی کے پس منظر میں ان کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ 

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سری نگر کے مرکزی علاقے میں خشک میوہ جات کی دکان پر لوگ مختلف اقسام کی کھجوریں خریدنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، خریدار بہترین معیار کی کھجوروں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں جب کہ کچھ لوگ خصوصی طور پر مدینہ منورہ کی کھجوریں طلب کرتے ہیں۔ 

اس رمضان چند کشمیری کھجور فروش اپنے ذرائع خریداری کے حوالے سے خاص طور پر محتاط ہیں، خاص طور پر اسرائیل سے آئی کھجوروں کے بارے میں، کیونکہ غزہ اور لبنان میں جاری کشیدگی کے پس منظر میں ان کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ 

عمر مہراج، جو سری نگر کی ایک مصروف سڑک پر خشک میوہ جات کا کاروبار کرتے ہیں، انہی تاجروں میں شامل ہیں اور مسلسل گاہکوں کی خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ 

عمر مہراج نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ہر سال نئی اقسام کی کھجوریں لانے کی کوشش کرتے ہیں، اب خشک میوہ جات کی ہر دکان میں کئی اقسام کی کھجوریں دستیاب ہوتی ہیں، جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ متنوع ہو چکی ہیں۔

’ہمارے پاس بھی تقریباً 15 اقسام کی کھجوریں موجود ہیں، جن میں سب سے زیادہ طلب سعودی عرب کی کھجوروں کی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس سال میں نے خاص طور پر یہ فیصلہ کیا کہ اسرائیل کی کسی بھی کھجور کو اپنی دکان پر فروخت نہیں کروں گا، یہ فلسطینی عوام کی جدوجہد میں میرا ایک چھوٹا سا تعاون ہے۔‘

اسرائیلی کھجوریں، جو بڑے پیمانے پر درآمد کی جاتی ہیں اور عالمی سطح پر مشہور ہیں، زیادہ تر مجہول کھجوریں ہوتی ہیں۔ یہ سائز میں بڑی، نرم اور کیریمل جیسی مٹھاس رکھتی ہیں۔ 

2023 میں، اسرائیل نے 57000 میٹرک ٹن سے زیادہ تازہ یا خشک کھجوریں برآمد کیں، جن کی مالیت 272.7 ملین امریکی ڈالر بنتی تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان میں ایک اور تاجر محمد ابراہیم بیگ بھی شامل ہیں، جو سری نگر کے قدیم شہر میں خشک میوہ جات کا کاروبار کرتے ہیں۔ 

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجہول کھجوروں کی پیداوار زیادہ تر اسرائیلی زیر قبضہ فلسطینی علاقوں، خاص طور پر مغربی کنارے کے آس پاس ہوتی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں اسرائیل فلسطینی وسائل، بشمول آب پاشی کے ذرائع، کو استعمال کر رہا ہے اور ان کھجوروں کو کاشت کر کے عالمی سطح پر برآمد کر رہا ہے۔‘

مارکیٹ میں مختلف اقسام کی کھجوروں کی موجودگی کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو سکتا ہے کہ کون سی کھجور کس ملک سے ہے تاہم کچھ اسلامی تنظیموں نے آن لائن فہرستیں جاری کی ہیں، جو کھجوروں کے اصل ذرائع کی نشاندہی کرتی ہیں۔ 

بیگ مزید کہتے ہیں کہ ’ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے گاہکوں کو آگاہ کریں کہ کون سی کھجوریں اسرائیلی ہیں اور کون سی مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک سے آئی ہیں، ہم ان مظالم میں کسی بھی طرح کا حصہ نہیں بننا چاہتے جو اسرائیل فلسطینی عوام پر ڈھا رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا