جوہری اسلحے نے دنیا میں بڑی جنگیں روک رکھی ہیں

جون 2020 میں جب دو ایٹمی طاقتوں  انڈیا اور چین، کی فوجوں کے درمیان ہمالیہ کی متنازع سرحد پر تصادم ہوا، تو فوجیوں نے خود کو ایک دوسرے کو لاٹھیوں سے مارنے اور پتھر پھینکنے تک محدود رکھا۔

ایک خاتون 12 اکتوبر 2024 کو ہیروشیما پریفیکچرل انڈسٹریل پروموشن ہال کے کھنڈرات کا دورہ کر رہی ہیں جسے اب عام طور پر ہیروشیما شہر میں ’ایٹم بم کا گنبد‘ کے نام سے جانا جاتا ہے (فلپ فونگ / اے ایف پی)

جب ہنری کسنجر کو 1973 میں نوبیل امن انعام ملا تو مزاح نگار ٹام لہرر نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا کیونکہ وقت کی ستم ظریفی نے مزاح کو فالتو شے بنا دیا تھا۔

لہٰذا نیک نیت لوگ 2024 کے امن انعام کو جاپانی گروپ نیہون ہیدانکیو کو دیے جانے کا خیرمقدم کریں گے، جو 1945 میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ہونے والے ایٹمی حملوں میں زندہ بچ جانے والے افراد پر مشتمل ہے۔

یہ گروپ جوہری جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں خبردار اور تخفیف اسلحہ کی وکالت کرتا ہے۔

ہم یقین کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ نوبیل امن انعام کے سیاسی وصول کنندگان کی طرح نہیں ہوں گے جنہوں نے اکثر اس انعام کو اپنے آپ اور اپنے سیاسی عزائم کے درست ہونے کے جواز طور پر استعمال کیا جن میں طاقت کا استعمال بھی شامل ہوتا ہے۔

یاد کریں کہ براک اوباما نے نوبیل انعام حاصل کرنے کے بعد لیبیا پر بمباری سے قبل اوسلو میں اپنی تقریر میں امریکہ کے اپنی اقدار کے دفاع اور انہیں مسلط کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کو کس طرح  فصاحت کے ساتھ جائز قرار دیا؟

حال ہی میں ایتھوپیا کے ابی احمد نوبیل امن انعام یافتہ بن گئے جبکہ ان کا وسیع اور پیچیدہ ملک بین النسلی خانہ جنگی کا شکار ہونے والا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے انعام یافتگان کا ذکر تو نہ ہی کریں۔

1945  کے بعد سے لڑی جانے والی ’روایتی‘ جنگوں میں اتنی زیادہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں کہ صرف دنیا کے خاتمے کے خطرے پر توجہ دینا، جو ابھی تک وقوع پذیر نہیں ہوا، اور روز ہونے والی اموات کو نظر انداز کرنا غیر اخلاقی عمل ہے۔

حتیٰ کہ البرٹ آئن اسٹائن کی مشہور (اگرچہ نیم افسانوی) وارننگ، کہ اگر تیسری عالمی جنگ ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ لڑی گئی، تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ چوتھی جنگ لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی، کو اب تک تجربے نے غلط ثابت کیا ہے۔

جون 2020 میں جب دو ایٹمی طاقتوں  انڈیا اور چین، کی فوجوں کے درمیان ہمالیہ کی متنازع سرحد پر تصادم ہوا، تو فوجیوں نے خود کو ایک دوسرے کو لاٹھیوں سے مارنے اور پتھر پھینکنے تک محدود رکھا۔

ایٹمی جنگ کے معاملے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے بچنے کی ضرورت نے بیجنگ اور نئی دہلی دونوں کو اس قسم کی شدید سرحدی جنگ سے باز رکھا، جیسی انہوں نے 1962 میں برفانی میدانوں میں لڑی جب ان میں سے کسی کے پاس ایٹم بم نہیں تھا۔

انڈیا کی مغربی محاذ پر کشمیر اب بھی امن سے بہت دور ہے جہاں مسلم باغیوں کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔

انڈیا اور پاکستان نے 1947 اور 1971 کے درمیان تین بڑی جنگیں لڑیں، جب دونوں کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں تھے لیکن 1998 کے بعد جب دونوں کے پاس ایٹم بم آ گیا، تب سے انہوں نے اپنی دشمنی کو ایٹمی جنگ کی حد سے نیچے رکھا ہوا ہے۔

حتیٰ کہ شمالی کوریا کی حکومت نے سخت پابندیوں کے شکار اپنے ایٹم بم کو استعمال نہیں کیا، جبکہ غیر ایٹمی ایران اور ایٹمی اسرائیل مکمل جنگ کے دہانے پر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غیر ایٹمی ریاستوں نے ایٹمی طاقت سے لیس بڑی طاقتوں کے ساتھ جنگیں لڑیں اور جوہری بم رکھنے والے ملکوں نے انہیں استعمال نہیں کیا۔

ماضی میں شمالی کوریا اور شمالی ویت نام نے امریکہ کے خلاف جنگ لڑی اور آج یوکرین روسی حملے کا مقابلہ کر رہا ہے۔

یوکرینی اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں سوویت دور کے جوہری ہتھیار ان کے علاقے سے ہٹا دیے گئے جس سے ان کی دفاعی صلاحیت کمزور ہوئی اور مغرب سے صرف کاغذی ضمانتیں ملیں۔

حالاں کہ حقیقت میں کیئف کا ایٹمی ہتھیاروں پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ کریملن نے کیئف پر بمباری نہیں کی۔

حال ہی میں صدر بائیڈن نے تسلیم کیا کہ انہیں یہ خوف تھا کہ 2022 میں جب روس کا یوکرین پر حملہ بری طرح ناکام ہو رہا تھا تو ولادی میر پوتن روسی ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتے تھے۔

پوتن کے اتحادی ملک چین اور امریکہ نے پوتن کو ایٹمی حملے سے باز رہنے کی وارننگ دی۔

یہ بات سامنے آئی ہے کہ جارح ملک کے لیے ایٹمی ہتھیار کوئی ’ترپ کا پتہ‘ نہیں کیونکہ ایٹمی ملک بھی چاہتے کہ ایٹم بم استعمال نہ کیا جائے خواہ اس کا استعمال کمزور ملک کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ دفاعی صلاحیت ہمیشہ کام آئے گی۔ غور کریں کہ کس طرح قتل عام کروانے والوں جیسے کہ ماؤ زے تنگ، یا نظریاتی دیوانوں جیسے کہ رچرڈ نکسن یا ان کے پیروکار ڈونلڈ ٹرمپ نے ایٹمی ہتھیاروں کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد محتاط رویہ اختیار کیا۔

1945 کے بعد سے اب تک ہونے والی تباہ کن جنگوں، مثال کے طور پر کوریا سے غزہ تک، نے دکھایا کہ ’روائتی‘ ہتھیار بھی شہریوں کے لیے کتنے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔

تو کیا ایٹم بم کے حق میں کچھ کہنا چاہیے؟

نوٹ: تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ