عالمی جوہری منظرنامہ ایک نئی دوڑ کی طرف گامزن ہے، جس میں مختلف ممالک اپنے جوہری ہتھیاروں کو جدید بنانے، نئی ٹیکنالوجیز متعارف کروانے اور روایتی اسلحے کی صلاحیتوں کو بڑھانے میں مصروف ہیں۔
سرد جنگ کے بعد جوہری تخفیفِ اسلحہ کی امیدیں اب زائل ہوتی جا رہی ہیں اور بڑی طاقتیں جیسے امریکہ، روس اور چین اپنی جوہری صلاحیتوں کو مزید بڑھاوا دے رہی ہیں۔
اس کے نتیجے میں ایک نئی عالمی دوڑ شروع ہو چکی ہے، جو جنوبی ایشیا جیسے حساس خطوں پر براہ راست اثر انداز ہو رہی ہے، جہاں انڈیا اور پاکستان جیسے جوہری ممالک پہلے ہی تاریخی رقابت اور سٹریٹیجیک عدم استحکام کا شکار ہیں۔
عالمی جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کے موجودہ رجحانات
جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور جدت
حالیہ برسوں میں، دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی جوہری صلاحیتوں کو مزید ترقی دے رہی ہیں جیسا کہ امریکہ اپنی جوہری تکون (Triad) کو جدید بنانے میں مصروف ہے، جس میں زمینی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBMs)، آبدوز سے داغے جانے والے بیلسٹک میزائل (SLBMs) اور سٹریٹیجک بمبار شامل ہیں۔
امریکہ نے اپنے Minuteman III میزائل کو اپ گریڈ کرنے اور جدید B-21 Raider بمبار متعارف کروانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔
دوسری جانب روس بھی اپنی جوہری صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ کر رہا ہے۔ خاص طور پر ہائپر سونک ہتھیاروں جیسے Avangard میزائل، جو آواز کی رفتار سے کئی گنا زیادہ تیز ہیں، کو اپنے اسلحہ خانے میں شامل کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، روسی جوہری آبدوزیں اور جدید ایٹمی ہتھیار عالمی استحکام کے لیے چیلنج بن رہے ہیں۔
چین بھی اپنی جوہری قوت کو تیزی سے بڑھا رہا ہے اور ایک مضبوط ڈیٹرنس حکمت عملی اپنا رہا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، چین 300 سے زائد نئے میزائل سائلوز تعمیر کر رہا ہے، جو اس کی جوہری طاقت میں نمایاں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔
اسلحہ کنٹرول کرنے والے معاہدوں کی ناکامی
ماضی میں کئی معاہدے جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوئے، مگر حالیہ برسوں میں ان میں کمی آئی ہے۔
انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز (آئی این ایف) معاہدہ: امریکہ اور روس کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ 2019 میں ختم ہو گیا، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک درمیانے فاصلے کے جوہری ہتھیاروں کی ترقی پر دوبارہ کام کرنے لگے۔
نیو سٹارٹ معاہدہ: امریکہ اور روس کے درمیان جوہری ہتھیاروں کو محدود کرنے والا یہ آخری بڑا معاہدہ بھی غیر یقینی صورت حال کا شکار ہے۔
صرف بڑی نیوکلیئر طاقتیں نہیں، بلکہ نسبتاً چھوٹے کھلاڑی بھی اپنے جوہری اسلحے میں مسلسل اضافہ کیے جا رہے ہیں۔
شمالی کوریا کی جانب سے آئے دن جوہری اور بیلسٹک میزائل ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں، جو خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔
ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بھی عالمی برادری میں شدید تشویش پائی جاتی ہے، کیونکہ اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں شدت
عالمی جوہری دوڑ کے اثرات جنوبی ایشیا میں بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان دونوں اپنی جوہری صلاحیتوں کو بڑھانے پر توجہ دے رہے ہیں۔
انڈیا اپنی میزائل ٹیکنالوجی اور جوہری ہتھیاروں کے نظام کو مسلسل جدید بنا رہا ہے، جس میں اگنی-5 جیسے میزائل اور نئی آبدوز سے چلنے والے نیوکلیئر میزائل شامل ہیں۔
پاکستان بھی اپنی جوہری صلاحیتوں میں بہتری لا رہا ہے اور ’فل سپیکٹرم ڈیٹرنس‘ حکمت عملی اپنا رہا ہے، جس میں ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیاروں (TNWs) کا اضافہ شامل ہے۔
چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ
چین جنوبی ایشیا میں ایک اہم سٹریٹیجک کھلاڑی ہے اور اس کا اثر و رسوخ انڈیا اور پاکستان دونوں پر نظر آ رہا ہے:
انڈیا-چین جوہری مسابقت: چین کے جوہری ہتھیاروں میں اضافے سے انڈیا کو بھی اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے، جس سے خطے میں ایک نیا سٹریٹیجک توازن قائم ہو رہا ہے۔
چین-پاکستان دفاعی تعاون: چین پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی میں مسلسل مدد فراہم کر رہا ہے، جس سے پاکستان کی نیوکلیئر ڈیٹرنس حکمت عملی مزید مضبوط ہو رہی ہے۔
جوہری جنگ کا خطرہ اور استحکام کی کمی
انڈیا اور پاکستان کے درمیان متعدد تنازعات جیسے کشمیر اور سرحدی جھڑپیں جوہری جنگ کے خطرے کو بڑھا سکتی ہیں۔ خاص طور پر فروری 2019 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بالاکوٹ واقعے کے بعد کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا، جس نے جوہری تصادم کے خدشات کو مزید گہرا کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معیشت پر اثرات
جنوبی ایشیائی ممالک جوہری ہتھیاروں کی ترقی کے لیے بےتحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں، جو کہ معیشت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ اگر یہ وسائل صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر لگائے جائیں تو خطے کی مجموعی ترقی میں زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔
حل اور مستقبل کا لائحہ عمل
سفارتی تعلقات کی بہتری اور مذاکرات
انڈیا اور پاکستان کو اعتماد سازی کے اقدامات (سی بی ایمز) پر زور دینا چاہیے، تاکہ جوہری جنگ کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔
علاقائی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
عالمی برادری کا کردار
اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنے کے لیے مزید فعال کردار ادا کریں۔
امریکہ، چین اور روس کو اسلحہ کنٹرول معاہدوں کو بحال کرنے پر زور دینا چاہیے، تاکہ عالمی سطح پر جوہری استحکام قائم رکھا جا سکے۔
جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر ڈاکٹرائن کی وضاحت
انڈیا اور پاکستان کو اپنی نیوکلیئر پالیسیز میں شفافیت پیدا کرنا چاہیے تاکہ کسی غلط فہمی کی بنیاد پر جنگ کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔
دونوں ممالک کو نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو مضبوط کرنا ہو گا تاکہ جوہری ہتھیاروں کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔
عالمی جوہری اسلحہ دوڑ ایک خطرناک سمت میں بڑھ رہی ہے، جس کے اثرات جنوبی ایشیا میں شدت کے ساتھ محسوس کیے جا رہے ہیں۔
انڈیا، پاکستان اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی نیوکلیئر سٹریٹیجک مسابقت خطے کو مزید غیر مستحکم کر سکتی ہے۔ اس مسئلے کا حل سفارت کاری، اسلحہ کنٹرول معاہدوں اور اعتماد سازی کے اقدامات میں مضمر ہے۔
اگر ان امور پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو خطہ نہ صرف جوہری تصادم کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے بلکہ اس کی مجموعی ترقی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔