بلوچستان کے علاقے نوشکی میں پولیس حکام کے مطابق اتوار کو سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملے میں پانچ افراد جان سے گئے جبکہ دس زخمی ہوئے ہیں۔
ایس ایچ او نوشکی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس حملے میں این اے 40 پر نوشکی شہر کے قریب کوئٹہ سے نوکنڈی جانے والے سکیورٹی فورسزکے اہلکاروں کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
زخمیوں کو نوشکی کے مقامی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
سکیورٹی حکام کے مطابق اس حملے میں ایف سی اہلکاروں کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس میں سات بسیں، دو گاریاں شامل تھیں۔ حملے کے نتیجے میں حکام کے مطابق تین ایف سی اہلکار اور دو عام شہری جان سے گئے ہیں۔
ایک بیان میں سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ’خودکش حملہ آور کے علاوہ تین دہشت گرد ابتدائی فائرنگ کے تبادلے میں مار دیا گیا ہے۔
بیان کے مطابق ایف سی کی اضافی نفری جائے وقوعہ پر پہنچ چکی ہے اور فضائی نگرانی کے ذریعے شدت پسندوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’بلوچستان کے امن سے کھیلنے والوں کو عبرت ناک انجام تک پہنچائیں گے۔‘
وزیر اعلیٰ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ ’بزدلانہ حملے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے، دہشت گردوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی۔‘
بیان کے مطابق ’بلوچستان میں دہشت گردوں کے لیے کوئی جگہ نہیں، ہر قیمت پر امن قائم کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے نوشکی دالبندین شاہراہ پر بس کے قریب دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ’پانچ افراد کی موت‘ کی تصدیق کی ہے۔
ان کے علاوہ ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے بھی اس تازہ واقعے کی مذمت کی ہے۔
دوسری جانب بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
اس سے قبل کالعدم عسکریت پسند تنظیم بی ایل اے نے 11 مارچ 2025 کو کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر بولان پاس کے علاقے ڈھاڈر میں حملہ کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔
تاہم بعد میں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے مسافروں کو بازیاب کروا لیا اور حملہ کرنے والے ’تمام شدت پسندوں‘ کو مارنے کا دعویٰ کیا تھا۔