جعفر ایکسپریس حملہ: جوتے، ٹوپیاں اور بوتلیں، جائے وقوعہ پر کیا دیکھا؟

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم بلوچستان کے خصوصی دورے کے دوران اس مقام پر پہنچی، جہاں جعفر ایکسپریس ٹرین مشکاف کے قریب اوسی پور کے پہاڑوں کے بیچوں بیچ کھڑی ہے۔

بلوچستان میں حملے کا شکار ہونے والی جعفر ایکسپریس ٹرین مشکاف کے قریب اوسی پور کے پہاڑوں کے بیچوں بیچ کھڑی ہے، جہاں ٹرین کے نیچے جوتے، ٹوپیاں اور پانی کی بوتلیں گری ہوئی نظر آئیں۔

مارے گئے حملہ آوروں کی لاشیں تو وہاں موجود نہیں تھیں، لیکن جما ہوا خون ضرور موجود تھا۔

کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر 11 مارچ 2025 کو بولان پاس کےعلاقے ڈھاڈر میں علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لیبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملہ کر کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا تھا، تاہم سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے مسافروں کو بازیاب کروا لیا اور حملہ کرنے والے تمام شدت پسندوں کو بھی مار دیا گیا۔

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم کے بلوچستان کے خصوصی دورے کے دوران سکیورٹی حکام نے بتایا کہ ’ایس ایس جی کے سنائپرز نے حملہ آوروں کو تب نشانہ بنایا تھا، جب وہ ٹرین کے نیچے سے فائرنگ کر رہے تھے۔‘

12 مارچ کی شام آپریشن ختم ہونے کے بعد 13مارچ کو علاقے کی سینیٹائزیشن مکمل کی گئی، جس کے بعد میڈیا کو جائے وقوعہ کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی۔

سبی پہنچنے کے بعد وہاں سے ٹرالہ نما ٹرین، جس میں گاڑیوں کے پرزوں کی ترسیل کی جاتی ہے، کے ذریعے ہم 20 منٹ میں درہ بولان کے ٹنل نمبر آٹھ کے پاس پہنچے۔ اس علاقے کے بہت سے نام ہیں، لیکن عمومی طور پر یہ علاقہ درہ بولان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

درہ بولان کی لمبائی 70 کلومیٹر ہے۔ بلوچستان کے ضلع کچھی میں مچھ ریلوے سٹیشن سے تقریباً  78 کلومیٹر دور ڈھاڈر کا علاقہ واقع ہے اور اس سے قریب پنیر ریلوے سٹیشن ہے۔

اس علاقے میں پہاڑوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، جو ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ یہ ایک دشوار گزار علاقہ ہے اور یہاں قریب میں کوئی آبادی نہیں ہے۔ انتہائی قریب ترین گاؤں بھی پہاڑوں کی دوسری طرف 50 کلومیٹر دور ہے جبکہ قومی شاہرہ این 65 ریل کے ٹریک سے 22 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

دشوار علاقہ ہونے کی وجہ سے سکیورٹی اداروں کے لیے اس کی سکیورٹی قائم رکھنا ایک چیلنج ہے جبکہ شدت پسند عناصر کے لیے یہ آئیڈیل مقام ہے تاکہ وہ کارروائیاں کر کے پہاڑوں میں غائب ہو جائیں۔ خاکی رنگ کے خشک پہاڑوں میں اسی رنگ کے غار موجود ہیں، جو دور سے نظر بھی نہیں آتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس علاقے میں پانی بھی نہیں ہے، صرف ایک نالہ ہے، جو حالیہ برف باری اور بارشوں کی وجہ سے جاری ہوا اور اس میں بہت کم پانی ہے۔ یہ نالہ مشکاف کے مقام سے بہتا ہے۔ سکیورٹی حکام نے بتایا کہ ’تقریباً 30 گھنٹوں کی لڑائی میں وہ اسی نالے سے پانی پیتے رہے۔‘

جس مقام پر یہ واقعہ ہوا، وہاں سے سبی سکاؤٹس اور غزہ بند سکاؤٹس قریب ہیں، لہذا دونوں اطراف کی نفری یہاں پر پہنچی۔

سبی سکاؤٹس کے کمانڈر بریگیڈیئر عمر الطاف نے بتایا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ہمیں واقعے کی اطلاع دیر سے ملی یا ہم نے ردعمل دیر سے دیا۔ یہ بالکل غلط ہے کیونکہ ہمارے واچ کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ جب اس ٹریک کے سامنے ہماری پوسٹ پر تین اہلکاروں کو شہید کر کے انہوں (بی ایل اے) نے کنٹرول لیا اور پھر پہاڑ کی چوٹی سے ٹریک کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا تو ہمیں اسی وقت علم ہو گیا تھا۔ ہم براہ راست کیمرے سے دیکھ بھی رہے تھے اور حکمت عملی بھی بنا رہے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’دن ایک بجے یہ واقعہ ہوا اور 10 منٹ میں سبی سکاؤٹس کے دستے نکل چکے تھے۔ سبی سکاؤٹس سے جائے وقوعہ کا فاصلہ پانچ کلو میٹر ہے، اس لیے پہلا ردعمل اس طرف سے ہم نے دیا اور بعد ازاں مچھ سے غزہ بند سکاؤٹس کے دستے بھی آپریشن کے لیے دوسری طرف سے آ گئے، جس کی وجہ سے علاقے کو گھیرے میں لینے میں آسانی ہوئی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’تقریباً 30 گھنٹوں میں آپریشن مکمل ہو گیا۔ منگل کو دن میں شروع ہونے والا آپریشن بدھ کی شام تک مکمل ہو چکا تھا۔‘

بریگیڈیئر عمر الطاف نے بتایا کہ ’ہم نے ان (حملہ آوروں) سے آٹھ مقناطیسی بارودی مواد کی ڈیوائسز برآمد کی ہیں، کیونکہ ان کا پلان یہ تھا کہ اگر مطالبات پورے نہیں ہوتے تو پوری ٹرین کے ساتھ لگا کر اسے دھماکے سے اڑا دیں گے۔‘

جب ان سے سوال کیا گیا کہ افغانستان کے ساتھ تانے بانے کیسے ملے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ’دہشت گردوں سے تھرایا سیٹلائٹ فون بھی ملا ہے، جس میں موجود رابطہ نمبرز سب افغانستان کے تھے اور وہاں سے کمیونیکیشن چل رہی تھی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’حملہ آوروں نے مچھ سے آتے ہوئے ٹرین کے بائیں جانب کے پہاڑ پر قبضہ کر رکھا تھا اور وہیں سے وہ سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے رہے۔ جب فضائی آپریشن شروع ہوا تو حملہ آوروں کی ایک بڑی تعداد پیچھے کے پہاڑوں پر بھاگ نکلی، جن کا وہاں بھی فضا سے نشانہ لیا گیا، لیکن پہاڑی سلسلے میں زمینی فوج کا پیچھا کرنا ممکن نہیں کیونکہ یہ علاقہ بہت بڑا ہے اور چھپنے کے بہت مقامات ہیں۔‘

ٹرین مسافر کس طرف اور کیسے بھاگے؟

بریگیڈیئر عمر نے بتایا: چونکہ سبی سکاؤٹ نے فوراً ہی حملہ آوروں کو آگے کی طرف سے مصروف کر دیا تھا، جس کی وجہ سے ٹرین کے مسافر، جنہیں باہر مختلف ٹولیوں کی صورت میں بٹھایا گیا تھا، انہیں فرار ہونے کا موقع ملا، وہ مچھ کی جانب جس طرف سے ٹرین آئی تھی، ادھر ہی واپس بھاگے۔

’چونکہ حملہ آوروں کا دھیان آگے تھا تو مسافروں کو وہاں سے نکلنے میں آسانی ہوئی اور آگے سے مچھ سکاؤٹس نے ریلیف ٹرین چلا کر انہیں بحفاظت مچھ ریلوے سٹیشن تک پہنچایا جبکہ کچھ لوگ پیدل بھی آدھے راستے تک گئے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’قریبی ریلوے سٹیشن مچھ تھا، اس لیے سارا ریلیف آپریشن مچھ سکاؤٹ کی طرف سے چلایا گیا، جہاں سے زخمیوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔‘

علاقے کے دورے کے دوران ہم نے دیکھا کہ ٹرین کی پانچ بوگیوں کے نیچے پٹڑی ٹوٹ چکی ہے۔

ریلوے کے ڈپٹی چیف انجینیئر رشید امتیاز صدیقی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’1825 میں یہ ٹریک انگریزوں کے دور میں  بنا تھا، جس کے بعد حالیہ کچھ برسوں میں وقتاً فوقتاً مختلف مقامات پر دہشت گرد ٹریک کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں، جنہیں ہم بعد میں ٹھیک کرتے ہیں، لیکن پوری ٹرین کو یرغمال بنانا اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’398 فٹ کا ٹریک دھماکے سے متاثر ہوا ہے، جسے پورا نیا لگایا جائے گا کیونکہ یہ پورا خراب ہوا ہے اور اس کی مرمت کے لیے زیادہ سے زیادہ آٹھ نو گھنٹے درکار ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان